ارشد قتل کے حقائق تک پہنچنا ضروری، غلطی ہوسکتی لیکن ہم غدار نہیں ہوسکتے، ترجمان پاک فوج
راولپنڈی: پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے صحافی ارشد شریف کی موت کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کے ساتھ اہم پریس کانفرنس کی۔
ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کی وفات سے جڑے حقائق تک پہنچنا ضروری ہے، کیونکہ اس حوالے سے اداروں، لیڈرشپ اور آرمی چیف پر بے بنیاد الزام تراشی کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف نڈر صحافی تھے اور ایک شہید فوجی کے بھائی تھی، ارشد شریف کی موت انتہائی اندوہناک واقعہ ہے، دیکھنا ہوگا کہ مرحوم ارشد شریف کی موت کے حوالے سے اب تک کیا حقائق سامنے آئے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا دیکھنا ہوگا کہ ارشد شریف کو ملک سے باہر جانے پر کس نے مجبور کیا، ہماری اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی خاص ہدایت پر 5 اگست کو تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا، اس تھریٹ الرٹ سے سیکیورٹی اداروں سے کوئی معلومات شیئر نہیں کی گئیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا، کے پی حکومت نے ارشد شریف کو باچا خان ایئرپورٹ تک مکمل پروٹوکول دیا۔
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا تھریٹ الرٹ سے لگتا ہے کہ اس کا مقصد ارشد شریف کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا، سلمان اقبال نے شہباز گل کی گرفتاری کے بعد عماد یوسف کو کہا ارشد شریف کو باہر بھیج دیا جائے، ارشد شریف کی موت کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہونی چاہیے، ان تمام حالات و واقعات میں اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو سلمان اقبال کا ذکر بار بار آتا ہے، انہیں واپس پاکستان لایا جائے اور شامل تفتیش کیا جائے، ہم سب کو انکوائری کمیشن کا انتظار کرنا چاہیے۔
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا اپنے اداروں پر اعتماد رکھیں، ماضی میں ہوئی غلطیوں کو پچھلے 20 سال سے اپنے خون سے دھو رہے ہیں، ہم کمزور ہوسکتے ہیں، ہم سے غلطیاں ہوسکتی ہیں مگر ہم سارشی نہیں ہوسکتے کیونکہ ایک بہت مشہور اسکالر نے کہا تھا کہ اگر پاکستان کو توڑنا ہے تو اس کی فوج کو کمزور کرنا ہوگا۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا ایک متحد قوم ہی چیلنجز کا مقابلہ کرسکتی ہے، ہم بطور ادارہ کبھی اپنی قوم کو مایوس نہیں کریں گے، یہ وقت اتحاد، تنظیم اور نظم و ضبط کا ہے۔
ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا سابق وزیراعظم نے سائفر پر کہا تھا کہ کوئی بڑی بات نہیں لیکن پاکستانی سفیر کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، اسد مجید کے حوالے سے من گھڑت خبر بھی چلائی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ آرمی چیف نے 11 مارچ کو کامرہ میں اُس وقت کے وزیراعظم سے سائفر کا خود ذکر کیا اور پھر 27 مارچ کو ایک خط لہرا دیا گیا، ہم نے ہر ممکن کوشش کی سیاستدان خود مسئلہ حل کریں لیکن ایسانہ ہو سکا، سائفر کے معاملے پر کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سائفر سے متعلق من گھڑت کہانی سنائی گئی، آئی ایس آئی کو سائفر سے متعلق کسی سازش کے شواہد نہیں ملے، ہم حقائق قوم کے سامنے لانا چاہتے تھے لیکن اُس وقت کی حکومت پر چھوڑ دیا، سائفر سے متعلق رجیم چینج آپریشن کا کہا گیا، پاکستانی فوج کو نشانہ بنایاگیا، ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج آپریشن سے جوڑ دیا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا مرحوم ارشد شریف، دیگر صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے بھی سائفر پر بات کی، اس سب کے باوجود ہمارے دل میں ارشد شریف سے متعلق کوئی نفرت نہیں ہے، ہم نے کہا بغیر ثبوت من گھڑت الزامات ادارے پر نہ لگائے جائیں، میڈیا ٹرائل میں اے آر وائی چینل نے جھوٹے، سازشی بیانیے کے فروغ میں کردار ادا کیا۔