ملک نازک صورت حال سے گزر رہا ہے

ڈاکٹر غزالہ خالد

جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے آپ سب نے یہ سنا ہوگا کہ ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ یہ تو آپ نے صرف سنا ہوگا، لیکن اب یہ قوم اس قول کی حقیقی تصویر بھی دیکھ رہی ہے، ملک واقعی نازک صورت حال سے گزر رہا ہے۔
آپ، میں ہم سب کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ہم سے ملک نہیں ہم ملک سے ہیں۔ وطن جیسی نعمت کا ان سے پوچھیں جو اس سے محروم ہیں یا ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ انسان کا المیہ یہ ہے کہ جو اس کے پاس ہوتا ہے تب اس کی قدر نہیں کرتا اور جب وہ اس کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے تب وہ ہاتھ ملتا رہ جاتا اور پچھتاتا ہے کہ کاش اس وقت قدر کرلیتے، لیکن کیا کہیں وقت بہت ظالم ہے ایک بار گزر جاتا ہے تو پلٹ کر دوبارہ نہیں آتا۔
اتنی تمہید باندھنے کا مقصد تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ میں آج ملک کی نازک صورت حال پر بات کروں گی۔ وطن عزیز پر جھوٹ کا ایسا کالا سایہ چھا جائے گا کس نے سوچا تھا؟ ہر طرف جھوٹ کا چرچا، پروپیگنڈا اور اس جھوٹ پر ایمان کی حد تک یقین رکھنے والے افراد ، کس نے سوچا تھا؟ ایک پرانی کہاوت ہے کہ جھوٹ کے پاوُں نہیں ہوتے، پر جس طرح جھوٹ اس ملک میں پھیل رہا ہے، میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ جھوٹ کے پاوُں نہیں ہوتے مگر پر ضرور ہوتے ہیں اور وہ ان پروں سے اُڑ کر بڑی تیزی سے پھیلتا ہی جاتا ہے۔ جھوٹ، وہ بھی کس کے خلاف؟ اپنے ملک کے خلاف؟ اپنے ہی اداروں کے خلاف؟
دنیا کے کسی بھی اہم طاقتور، بڑے یا چھوٹے ملک کے دفاع میں جہاں وسائل نے اہم کردار ادا کیا ہے، وہیں پہ ملکی سلامتی کی ذمے داری ان ممالک کی افواج نے ادا کی ہے۔ فوج ریاست کی سلامتی، آزادی اور شہریوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کا واحد ضامن دفاعی ادارہ ہوتا ہے، جو شخص مادرِ وطن سے محبت کرتا ہے وہ فوج پر شدید نوعیت کی تنقید کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا، جس سے اس ملک کی فوج کمزور ہو، اس کے اندر بددلی اور بداعتمادی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔
پاکستان ایٹمی ریاست ہے، جس کے اہم ترین ستون مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ، فوج اور میڈیا ہیں، جن میں سے اگر ایک ستون بھی کمزور ہوا تو ریاست مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ آئین کے مطابق ریاست کا کوئی شہری فوج کی تضحیک نہیں کرسکتا۔ اسی ضمن میں پاکستان کے دفاعی اداروں نے بھی ہر محاذ پر ملکی سلامتی میں اپنا کردار روز اول سے ادا کیا۔
65 کی جنگ ہو یا 71 میں دشمن کا سامنا، کارگل کے برف پوش پہاڑ ہوں یا نائن الیون کے بعد دشوار گزار کٹھن مرحلے، پاک فوج نے ہمیشہ ملکی دفاع کے لیے جانیں نچھاور کیں، ملک پر کسی قسم کی آنچ نہ آنے دینے کے لیے ایک انچ پیچھے نہ ہٹے اور سرحدوں پر ڈٹ کر کھڑے رہے۔ ملک پر جب بھی مشکل وقت آیا پاک فوج نے دفاعی ذمے داری کے ساتھ ملک کی خاطر سیاسی ذمے داروں کے ساتھ مل کر ریاست کے وسیع تر مفاد میں اضافی ذمے داریاں بھی نبھائیں۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی فوج عوامی حمایت کے بغیر نہ ہی کسی دشمن ملک کے خلاف جنگ جیت سکتی ہے اور نہ ہی اپنے ہی ملک کے داخلی امن کو قائم کرسکتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی دفعہ عدم اعتماد کی تحریک کے کامیاب ہونے کے بعد سے پی ٹی آئی کے قائد، رہنما اور کارکنان جس طرح سوشل میڈیا پر ملک کے ریاستی اداروں بالخصوص افواج پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں، وہ ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے۔
سانحہ لسبیلہ میں افواجِ پاکستان کے جوان سے لے کر جنرل رینک تک کے لوگوں کی شہادتیں ہوئی تھیں۔ پوری قوم انتہائی رنجیدہ تھی، لیکن سوشل میڈیا پر مہم چلاکر افواجِ پاکستان کی ان شہادتوں کو مشکوک بنایا گیا۔
اس ساری مہم سے سب سے زیادہ خوش بھارت کے حکمران اور میڈیا ہیں، بھارت گزشتہ چار دہائیوں سے افواج پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے، جو کسی مہلک ہتھیار سے کم نہیں ہے۔ بھارت جانتا ہے کہ پاکستان کا دفاع انتہائی مضبوط ہے اور افواج پاکستان کو اب جنگ سے زیر نہیں کیا جاسکتا ہے، اس لیے انہوں نے پاکستانی فوج کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کی مہم جاری کر رکھی ہے۔ ایسی حالت میں پاک فوج کے خلاف منفی پروپیگنڈا نادانی میں دشمن کو فائدہ پہنچانے کے مترادف ہے۔
سیاست دان اپنی سیاست ضرور کریں، لیکن وہ اپنے سیاسی یا ذاتی مفادات کے لیے فوج کی بطور ادارہ عزت و تکریم نہ بھولیں اور اپنے فالوورز اور سوشل میڈیا ونگز کو بھی یہ تربیت دیں۔ سیاسی مسائل سڑکوں پر نہیں بلکہ ٹیبل پر بیٹھ کر حل ہونے چاہیے۔ حکومت کو بھی دل بڑا کر کے عمران خان کے جائز مسائل کو سننا اور سمجھنا چاہیے۔ عمران خان کو بھی چاہیے کہ وہ عوام میں جا کر مزید نفرتوں کی آگ نہ لگائیں بلکہ بیٹھ کر مسئلہ حل کرلیں۔
ہم سب کو مل کر اس وطن عزیز کی بہتری کے لیے کام کرنا ہے اور مادر وطن کو ہر بری نظر سے محفوظ کرنا ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔