بچوں کو کتاب دوست بنایا جائے

بلال ظفر سولنگی


ہر قوم کی ترقی کا دارومدار تعلیم و تربیت پر ہوتا ہے۔ ایک ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد علم پر ہوتی ہے مگر موجودہ دور میں جہاں سائنسی و تکنیکی ترقی نے دنیا کو ایک نئے رخ پر گامزن کیا ہے، وہیں تعلیم کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے، لیکن اس جدید ترقی کی بدولت طلباء کا تعلیم سے تعلق کمزور پڑرہا ہے اور موبائل فونز، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ان کی توجہ تعلیم سے ہٹ اور بٹ رہی ہے۔ علم کے سمندر میں غوطہ زن ہونے کے بجائے وہ بے راہ روی کا تیزی سے شکار ہورہے ہیں۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکریہ بھی ہے۔
ایسے میں ہمیں تعلیم کی بہتری کے لیے طلباء کو موبائل فونز سے دور اور کتابوں سے قریب کرنا ہوگا۔ والدین کی اس میں بہت اہم ذمے داری ہے کیونکہ بچوں کی ابتدائی تعلیم اور تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے۔ اگر والدین اپنے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے سنجیدہ نہیں تو یہ بچے مستقبل میں معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا نہیں کرپائیں گے۔ موبائل فونز کے استعمال میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر نوجوانوں میں۔ موبائل فونز اور انٹرنیٹ کا استعمال جہاں ایک طرف دنیا کو جڑنے اور معلومات تک رسائی میں مدد دیتا ہے، وہیں اس کا بے جا استعمال بچوں کی تعلیم اور ذہنی نشوونما پر منفی اثرات بھی مرتب کررہا ہے۔ موبائل فونز پر وقت گزاری کی وجہ سے طلباء کی توجہ اپنی تعلیم سے ہٹ جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کی بے شمار ایپس جیسے فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب کی طرف طلباء کا جھکاؤ انہیں غیر ضروری سرگرمیوں میں ملوث کردیتا ہے، جس کے نتیجے میں ان کی تعلیم کا حرج ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موبائل فونز کی ایپس اور گیمز نے طلباء کے ذہن کو منتشر کردیا ہے۔ موبائل فونز کا طویل استعمال نہ صرف پڑھائی میں مشکلات پیدا کرتا بلکہ بچوں کی نیند اور صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ جب بچے زیادہ وقت موبائل پر گزاریں گے تو وہ کتابوں کی طرف نہیں مائل ہوں گے، جس کے نتیجے میں ان کی علمی سطح میں کمی آئے گی۔
کتابیں انسان کی بہترین دوست ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اچھے طالب علم بنیں اور ان کا دماغ علمی لحاظ سے مضبوط ہو، تو ہمیں کتابوں سے ان کا تعلق مضبوط کرنا ہوگا۔ کتابوں کا مطالعہ انسان کے دماغ کو کھولتا ہے، نیا علم فراہم کرتا ہے اور ذہنی نشوونما میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ کتابیں انسان کے خیالات کو وسیع کرتی اور اسے دنیا کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ کرتی ہیں۔ اگر ہم بچوں کو کتابوں کے قریب کریں، تو وہ نہ صرف بہتر تعلیم حاصل کریں گے بلکہ ان میں کتابوں سے محبت بھی پیدا ہوگی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین خود بھی کتابوں کا مطالعہ کریں اور بچوں کے سامنے اچھی کتابوں کے انتخاب کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ گھر میں کتابوں کی موجودگی بچے کی ذہنی تربیت کے لیے بہت اہم ہے۔ اگر گھر میں کتابیں ہوں گی تو بچے قدرتی طور پر ان کی طرف راغب ہوں گے۔
والدین کا کردار بچوں کی تعلیم میں انتہائی اہم ہے۔ وہ نہ صرف اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں تک پہنچاتے بلکہ ان کی تعلیم و تربیت میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو موبائل فونز کے استعمال میں اعتدال سکھائیں اور انہیں کتابوں کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے تعلیمی اوقات کا ایک شیڈول بنائیں جس میں پڑھائی اور دیگر سرگرمیوں کے لیے وقت مختص ہو۔ اس کے علاوہ، انہیں بچوں کے موبائل فونز کے استعمال پر نظر رکھنی چاہیے تاکہ وہ تعلیمی وقت میں موبائل فونز کا استعمال نہ کریں۔ والدین کی طرف سے کتابوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا، کتابوں کے حوالے سے بچوں کی رہنمائی کرنا اور انہیں اچھے ادبی مواد کا تعارف کرانا ضروری ہے۔
تعلیمی ادارے بھی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ طلباء کو علم کی اہمیت اور کتابوں سے محبت سکھائیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ کلاس روم میں ایسی تدابیر اختیار کریں جس سے طلباء کتابوں کے ساتھ تعلق قائم کرسکیں اور موبائل فونز و دیگر غیر ضروری چیزوں سے دُور رہیں۔ اساتذہ کو طلباء میں کتابوں کے مطالعے کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دینی چاہیے اور ان کی رہنمائی کرنی چاہیے کہ کس طرح کتابیں انسان کی ذہنی سطح کو بلند کرسکتی ہیں۔ اس کے ساتھ، تعلیمی اداروں میں طلباء کے لیے کتابوں کی فراہمی اور پڑھنے کے لیے ماحول کا قیام بھی ضروری ہے، تاکہ بچے آسانی سے کتابوں تک رسائی حاصل کرسکیں۔
تعلیم کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو موبائل فونز سے دور اور کتابوں سے قریب کریں۔ والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کتابوں کی اہمیت سکھائیں اور ان کے مطالعے کی حوصلہ افزائی کریں۔ تعلیمی اداروں کو بھی طلباء کی ذہنی تربیت اور علمی سطح کو بلند کرنے کے لیے موثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر ہم اپنے بچوں کو موبائل کے بجائے کتابوں کی طرف راغب کریں تو ہم ان کے تعلیمی معیار کو بہتر بناسکتے اور ایک کامیاب اور ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل کرسکتے ہیں۔ لہذا، ہمیں اپنے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے زیادہ سنجیدہ ہونا ہوگا اور ان کے لیے ایک مثبت تعلیمی ماحول فراہم کرنا ہوگا، جہاں کتابیں ان کی دوست ہوں اور موبائل ان کی تعلیم میں رکاوٹ نہ بنے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔