انتخابات 8 فروری کو ہورہے، کنفیوژن نہ پھیلائی جائے، چیف جسٹس
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ مجرم سزا کاٹ کر الیکشن لڑنے کے لیے اہل ہوجاتا ہے۔
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی مدت کیس کی سماعت ہوئی۔
درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیے کہ عدالتیں ڈیکلریشن دینے کا اختیار رکھتی ہیں، 2017 میں سپریم کورٹ نے قرار دیا جب حقائق تسلیم شدہ ہوں ڈیکلریشن دیا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کیسے ڈیکلریشن دے سکتا ہے، سپریم کورٹ کو یہ حق کیسے حاصل ہوا، کیا سپریم کورٹ آرٹیکل 62 ون ایف کا براہ راست کورٹ آف لاء کے اختیار کا استعمال کرسکتی ہے، کیا الیکشن ٹریبونل تاحیات نااہل بھی کرسکتا ہے، بجلی بل نادہندہ ہو یا بینک ڈیفالٹ ہو تو نااہلی ہوسکتی ہے، سوال یہ ہے کہ نااہلی تاحیات ہوگی یہ کہاں لکھا ہوا ہے، نااہلی تاحیات کا اصول تو سمیع اللہ بلوچ کیس میں طے کیا گیا، اگر ہم سمیع اللہ بلوچ کیس اور سیکشن 232 دونوں کو غلط کہہ دیں تو نااہلی تو ایک دن بھی نہیں رہے گی، کوئی سچا ہے یا نہیں یہ اصول تو ٹرائل کے بعد ہی طے ہوسکتا ہے، اسلام میں توبہ اور صراط المستقیم پر واپس آنے کا راستہ موجود ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سنگین جرائم میں ملوث افراد بھی سزا کاٹ کر الیکشن لڑنے کے لیے اہل ہوجاتے ہیں، اہلیت سے متعلق دونوں آرٹیکل الیکشن سے قبل لاگو ہوتے ہیں، غداری، زیادتی، قتل کے الزام کا سامنا کرنے والا الیکشن لڑسکتا ہے لیکن معمولی خطا پر نااہلی تاحیات! جب قانون آچکا ہے اور نااہلی پانچ سال کی ہوچکی تو تاحیات والی بات کیسے قائم رہے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک فوجی آمر آتا ہے سب کو اٹھا کر باہر پھینک دیتا ہے، آمروں نے صادق و امین والی شرط اپنے لیے کیوں نہ ڈالی، آئینی ترامیم بھی گن پوائنٹ پر آئیں، بندوق کا تقدس کیسے مان سکتے ہیں، آرٹیکل 62اور 63 کا اطلاق فوجی آمر نے خود پر کیوں نہیں کیا۔
جسٹس فائز نے کہا کہ اراکین پارلیمنٹ کی اہلیت تو آمر نے آئین میں کی، یہاں ترامیم بھی گن پوائنٹ پر ہوتی رہیں، ان لوگوں نے سوچا ہوگا آدھی جمہوریت آجائے پوری جمہوریت سے تو بہتر ہے، فوجی آمر کے سامنے یہاں کوئی بات نہیں کرتا، پارلیمنٹ کو جتنی بھی حقارت سے دیکھیں وہ منتخب نمائندے ہوتے ہیں، یہاں بیٹھے پانچ ججز کی دانش ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں سے زیادہ کیسے ہوسکتی ہے؟، آپ کہہ رہے ہیں نااہلی تاحیات کرنے والے پانچ ججز کی دانش سے 326 اراکین اسمبلی کے اختیار کو ختم کیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم نااہلی دو سال بھی کرسکتے ہیں، الیکشن 8 فروری کو ہورہے ہیں، ایک ریٹرننگ افسر تاحیات نااہلی کے اصول کا اطلاق کرے گا، دوسرا ریٹرننگ افسر پانچ سال نااہلی کی بات کرے گا، ہم اس تضاد کو ختم کرنے کے لیے کیس سن رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ نااہلی تاحیات ہے یا پانچ سال۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کون تعین کرے گا، کس کا کردار اچھا کس کا نہیں۔
وکیل عثمان کریم نے جواب دیا کہ حتمی طور پر تعین اللہ ہی کرسکتا ہے۔
وکیل عثمان کریم نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ نے 2013 کے اللہ دینو بھائیو کیس کے فیصلے میں 62 ون ایف کی نااہلی دی، پھر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کرکے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی متعارف کرائی، اس کے بعد تین رکنی بینچ نے 2020 میں اللہ دینو بھائیو نظرثانی کیس میں نااہلی کالعدم قرار دے دی، جسٹس عمر عطا بندیال نے 2020 کے اللہ دینو بھائیو فیصلے پر انحصار کرکے فیصل واوڈا کیس کا فیصلہ دیا، اب سپریم کورٹ کا 62 ون ایف کا سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ اس لیے چلے گا کیونکہ پانچ رکنی بینچ کا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یعنی آپ کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال نے اس فیصلے کو بنیاد بناکر اپنے ہی مؤقف کی نفی کی؟
محمد عثمان کریم نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے، سپریم کورٹ نے نااہلی کی مدت کے تعین کی درست تشریح نہیں کی، سپریم کورٹ اپنی غلطی کی تصحیح کرسکتی ہے۔