5 اگست 2019۔۔۔ سیاہ ترین دن

غلام مصطفیٰ

3 سال قبل پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اعلان کو مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ یہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے، بھارت اسے یک طرفہ فیصلے سے ختم نہیں کرسکتا۔ پاکستان اس مسئلے کو دنیا کے ہر فورم پر اٹھائے گا اور تمام آپشنز بروئے کار لائے جائیں گے۔ بھارت کی ظالم اور جابر حکومت، فوج، پولیس اور آر ایس ایس کے دہشت گرد آئے روز مقبوضہ کشمیر میں کشمیری نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کررہے ہیں، عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کیا جارہا ہے، کتنی ہی مظلوم مسلم خواتین کی عزتوں کو پامال کردیا گیا ہے، کتنے گھر اجاڑ دیے گئے، باپ، بھائیوں کے سامنے ماﺅں، بہنوں کی عزتیں تار تار کی گئیں، یہ سب کچھ بھارتی ظالم فوج کررہی ہے اور اس کی پشت پناہی ناصرف بھارتی حکمراں کررہے بلکہ عالمی سطح پر نام نہاد انسانی حقوق کی چیمپئن بننے والی قوتیں ان کی پشت پناہی کررہی ہیں جب کہ وہ جانتی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر اور پورے بھارت میں مسلمانوں کو اقلیت قرار دے کر انہیں بڑی بے دردی اور بے رحمی سے شہید کیا جارہا ہے، ان کی جائیدادوں پر قبضے کیے جارہے ہیں، یہ سب کچھ بالکل اسی طرح ہورہا جس طرح اسرائیلی فوج فلسطین میں مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ کررہی اور دنیا خاموشی سے تماشا دیکھ رہی اور سمجھ رہی ہے کہ یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔
آج یہ مسئلہ کسی بھی کا ہو ہمیں ایک بات ذہین نشین رکھنی چاہیے اگر آج ہم نے اس ظلم پر آنکھیں بند کرلیں تو کل یہ ظلم وہاں سے بڑھ کر ہمارے ملکوں اور علاقوں تک بھی پہنچ سکتا ہے، پھر ہم کیا کریں گے؟ اگر ہم نے آج ان مظلوموں کے لیے کچھ نہیں کیا تو یقین جانیے کل کلاں کو خدانخواستہ ایسے ہی حالات سے ہمیں بھی گزرنا پڑسکتا ہے۔
5اگست 2019 کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جبر تسلط، فارمولے کے تحت مقبوضہ و جموں کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35-A کو منسوخ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی ریاست بنانے کی ناکام اور بھونڈی کوشش کی تھی، بھارت سرکار نے اقوام متحدہ کی قراردادوں، پاکستان کے تحفظات، کشمیری عوام کی خواہشات اور عالمی برادری کے تحفظات کی پروا کیے بغیر علاقائی اور بین الاقوامی امن دشمن طریقہ اختیار کرکے بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور35 اے کو منسوخ کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کردیا تھا۔ جب بھارتی صدر نے یہ حکم نامہ جاری کیا اور بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں ان دفعات کے خاتمے کا بل پیش کیا تو ایوان میں ہنگامہ ہوگیا اور اپوزیشن نے بل کو مسترد کردیا تھا۔ دفعہ 370 کے تحت مقبوضہ کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت حاصل تھی اور بھارتی پارلیمنٹ کا کوئی قانون یہاں اس وقت تک لاگو نہیں ہوسکتا تھا جب تک ریاست کی کٹھ پتلی اسمبلی سے اس کی منظوری نہ لی جائے۔ اسی طرح دفعہ35-A کے تحت کوئی غیر کشمیری مقبوضہ کشمیر میں نہ جائیداد خرید سکتا اور نہ ہی نوکری کرسکتا تھا۔ ان دفعات کی تنسیخ کے بعد ایک تو ریاست کو باضابطہ بھارت میں ضم کردیا گیا، دوسرا مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی گئی تھی۔ جس کے بعد بھارتی سرکار نے ایک سازش اور حکمت عملی کے تحت مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کرتے ہوئے وہاں بڑی تعداد میں ہندوﺅں کو ڈومیسائل فراہم کیے اور انہیں مقبوضہ کشمیر جائیداد خریدنے اور کاروبار، نوکریاں دے کر ایک بڑی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بھارتی حکمرانوں نے لداخ کو بھی کشمیر سے الگ کرکے اسے بھارت کا حصہ قرار دیا تھا۔
دو ایٹمی قوتوں کے درمیان تنازع کشمیر 8 دہائیوں سے حل طلب مسئلہ بنا ہوا ہے، اس مسئلے کا حل نہ ہونا اقوام متحدہ، عالمی قوتوں کی ناکامی اور جانبداری کو واضح طور پر پوری دنیا کے سامنے عیاں کررہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس مسئلے پر تین جنگیں ہوچکی ہیں اور نہ جانے مزید کتنی جنگیں ہوں گی؟ اور کتنا وقت لگے گا اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور انسانیت کا درد رکھنے والے ممالک اور شخصیات بھارتی اقدام کی مذمت کرچکے ہیں، مقبوضہ کشمیر پر متنازع فیصلے کے باعث دونوں ایٹمی قوتوں کے درمیان کشیدگی میں زبردست اضافہ ہوا ہے، پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور مسئلہ کشمیر کا پُرامن حل چاہتا ہے جب کہ بھارت سمجھتاہے کہ وہ کشمیر پر جبری تسلط قائم رکھتے ہوئے کشمیریوں کی نسل کشی کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ یہ اس کی بھول ہے۔
مقبوضہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، حالانکہ قیام پاکستان کے وقت یہ متنازع نہیں بلکہ پاکستان کا حصہ تھا، لیکن برطانوی سامراجی قوتوں کے آلہ کاروں نے اسے جان بوجھ کر بھارتی تسلط میں دے دیا تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ اٹکا رہے، حالانکہ کشمیر کی متنازع حیثیت اقوام متحدہ میں تسلیم شدہ ہے، سلامتی کونسل میں اس حوالے سے استصواب رائے کی قرارداد بھی موجود ہے، جس پر عمل درآمد کرانا عالمی اداروں کی ذمے داری ہے، اگر عالمی برادری بھارت پر دباﺅ ڈال کر اس قرارداد پر عمل درآمد کروالیتی تو آج شاید دونوں ممالک کے درمیان یہ تنازع ختم ہوچکا ہوتا اور دونوں ممالک اس مسئلے سے آزاد ہوکر اپنے عوام و ملک پر توجہ دیتے اور سالانہ دفاعی بجٹ کوکم کرکے اسے انسانی ترقی اور خوش حالی کے لیے استعمال کرتے۔
افسوس بھارت کی طرف سے صرف اسلحہ اور بارود کا ڈھیر جمع کیا جارہا ہے، جو بذات خود انسانی تباہی کا باعث بنے گا۔ ذرا سوچئے!

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔