بینظیر بھٹو دوسروں سے منفرد تھیں

احسن لاکھانی

پچھلے دنوں بینظیر بھٹو کی لکھی کتاب "Daughter of the East” کا مطالعہ کر رہا تھا۔ اس کتاب کو مکمل کرنے کے بعد میں بینظیر بھٹو کی شخصیت کا مداح بن گیا۔ آپ بینظیر بھٹو کی سیاست سے اختلاف یا اتفاق کر سکتے ہیں لیکن ان میں جو خصوصیات تھیں اس سے آپ منہ نہیں موڑ سکتے۔ میں جب بھی بینظیر بھٹو کو بات کرتے سنتا، ان کے انٹریوز، ان کی ملکی اور عالمی سیاست پر گہری نظر دیکھتا تو مجھے ان پر رشک آتا اور سوچتا کہ یہ پیدا ہی قدرتی ایسی ہوئی ہیں۔ لیکن ان کی سوانح عمری پڑھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ بینظیر بھی آپ اور میری طرح عام انسان تھیں بس بات ترجیحات کی ہیں۔ ہم اپنا اکثر وقت فضولیات میں صرف کرتے ہیں اور کامیاب لوگ اپنا وقت مستقبل کے لئے خرچ کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر بینظیر بھٹو نے ایک جگہ لکھا کہ میری زندگی عام لڑکے لڑکیوں سے مختلف تھی۔ جہاں عام لڑکے لڑکیاں پندرہ سولہ سال کی عمر میں ساحل سمندر میں تفریح کے لئے جایا کرتے وہیں مجھے گھر میں ذوالفقار علی بھٹو سیاست کا پاٹ پڑھاتے، تقریر کا فن سکھاتے۔ ایک واقعے کا انہوں نے ذکر کیا کہ میں اور پاپا ٹرین کا سفر کر رہے تھے میں دس سال کی تھی، سوئی ہوئی تھی۔ پاپا نے مجھے اچانک اٹھایا اور کہا اٹھو پنکی یہ وقت سونے کا نہیں ہے بہت بری خبر ہے امریکا کے صدر کینیڈی کو گولی مار دی ہے۔ وہ لکھتی ہیں میں دس سال کی تھی، کینیڈی کون ہیں مجھے معلوم بھی نہیں تھا لیکن مجھے پاپا کی سنجیدگی دیکھ کر سنجیدہ ہونا پڑا۔ اسی طرح لکھتی ہیں کہ جب میں اور میری چھوٹی بہن صنم مری میں اسکول میں زیر تعلیم تھے تب پاپا کے خطوط موصول ہوتے ان خط میں اکثر عالمی سیاست کا ذکر ہوتا۔ فلاں ملک کے وزیر اعظم نے یہ کہا فلاں ملک کے صدر نے یہ کہا۔ آج میں نے اقوام متحدہ کی تقریر میں یہ نقطہ پیش کیا۔ میں اس وقت صرف بارہ سال کی تھی اور پاپا جو کچھ لکھتے وہ مجھے سمجھ نہیں آتا تھا۔

بینظیر بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ

لیکن پھر بھی وہ خطوط میں بار بار پڑھتی تھی۔ جب بینظیر اوکسفرڈ سے تعلیم حاصل کرکے پاکستان لوٹیں تو انہیں اردو بولنا نہیں آتی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ پاپا مجھے روز ڈانٹتے اور میرے لئے باقائدہ سے اردو کا ٹیچر مقرر کیا گیا جو روز آکر مجھے اردو سکھاتا تھا۔ پاپا اکثر کہتے تھے کہ اس ملک کے لوگ اردو زبان سمجھتے ہیں تمھیں سیاست کرنی ہے تو انہیں ان کی زبان میں ہی سمجھاوُ۔ بینظیر نے ایک جگہ بڑی دلچسپ بات لکھی۔ جب وہ سیاست میں آئیں اور لاکھوں عوام سے خطاب کرنے کے لئے اسٹیج پر آتیں تو ہجوم دیکھ کر ان کے پسینے چھوٹ جاتے، ان کی ٹانگیں کانپتی اور وہ تقریر کا متن بھول جاتیں۔ آہستہ آہستہ مشق کے ذریعے انہوں نے اپنی اس کمزوری پر قابو پایا۔ یہی حال ابتدائی دنوں میں پریس کو انٹرویو دیتے وقت ہوتا تھا۔

بینظیر بھٹو اپنے والد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بھارت کے دورے پر بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی بھی موجود ہیں

میں یہ پڑھ کر بڑا حیران ہوا کہ بینظیر بھٹو جیسی خاتون تقریر کرتے ہوئے کانپے، الفاظ بھول جائے اور پسینے چھوٹیں۔ بینظیر بھٹو نے اس کتاب میں اپنی زندگی کے اور بہت سے دلچسپ پہلو کا ذکر کیا ہے۔ جیسے کس طرح بھٹو صاحب انہیں سیاست کے اسرار و رموز سکھاتے، عالمی دورے پر لے جا کر انہیں اپنے ساتھ رکھ کر سفارت کاری گا طریقہ سکھاتے۔ اکثر بھٹو صاحب بینظیر پر غصہ ہوجاتے کیونکہ وہ جذباتی تھیں اور کب کیا اور کیسے بولنا ہے اس کا فن انہیں نہیں آتا تھا۔ لیکن آپ دیکھیں وقت نے اس خاتون کو مدبر، چالاک اور سیاست کا گرو بنا دیا۔ آپ اگر پڑھنے کے شوقین ہیں اور سیاست میں دلچسپی ہے تو بینظیر کی لکھی یہ کتاب ضرور پڑھیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔