ایک دن بہادرشاہ ظفر کے ساتھ۔

ثنا اللہ خان احسن

مغل بادشاہ کے آنکھوں دیکھے شب و روز

بادشاہ کیسی زندگی گزارتے تھے!

مغلوں کے کھانے اور ان کے نام

اورنگ زیب عالمگیر کے بعد سے مغلوں کے اقتدار کو گُھن تو لگنا شروع ہو گیا لیکن وضع داریاں باقی تھیں، اچھی بری رسمیں جاری تھیں، جو بہادر شاہ ظفر نے آخردم تک نبھائیں اور رعایا کے دل میں بادشاہ کی محبت بھی آخر دم تک جاری رہی۔ وضع داری کی بات میں نہیں کہتا، چشم دید گواہ کہتے ہیں کہ جہاں پناہ کے معمولات میں فرق نہ آیا۔ ادھر صبح کی توپ چلی، ادھر بادشاہ بیدار ہوئے، غسل خانے گئے۔ جہاں جونپوری کھلی، خوشبو دار بیسن، چنبیلی، شبو، بیلا، جوہی، گلاب کے تیل سے بھری بوتلیں، چاندی، سونے کے جگ، جگمگ کرتے لوٹے لٹیاں رکھی ہیں۔ غسل کیا، لباسی محل گئے، رستم بیگ سردار، نے لکھنو کی چکن کا کرتہ، لٹھے کا ایک برکا پائے جامہ، دلّی کا کمر بند پیش کیا، مخملی کفش پائیاں( مخملی جوتیاں) پہنیں، شمیم خانے کے داروغہ نے سر میں تیل ڈالا، کنگھی کی۔ پھر کچھ دیر گلگشت( چہل قدمی) کیا، تسبیح خانے میں تشریف لائے اور دو رکعت نفل پڑھے۔

ایوانِ خلعت میں مہتمم ادویات نے حکیم احسن اللہ کی دستخطی سر بہ مُہرشیشی کی مُہر توڑی اور یاقوتی ( طب مشرق کی ایک دوا جو دل و دماغ کی فرحت کے لئے کھائ جاتی ہے) کی پیالی پیش کی۔ اسے پی کر چنوں سے منہ صاف کیا( یعنی دوا سے منہ کا خراب ذائقہ بدلنے کے لئے بھنے ہوئے چنے چبائے، حالانکہ یاقوتی بہت خوشذائقہ ہوتی ہے)۔ اے لیجئے، دس بج گئے۔ افسرانِ محکمہ کاغذات اور مسلیں لے کر حاضر ہوئے، ان پر احکام عالی کیے، سرمہ کے قلم سے دستخط ثبت ہوئے۔

گیارہ بجتے بجتے کام ختم کر کے جہاں پناہ محل کی طرف تشریف لے گئے۔ جسولنی( وہ عورتیں جو شاہی محل میں خبر پہنچاتی ہیں۔ چوبدارنی) نے آواز لگائی۔ ’’پیر و مرشد! حضور عالی، بادشاہ سلامت، عمر دراز، ظل سبحانی تشریف لاتے ہیں۔ زنانے میں معلوم ہو گیا۔ بیگمات اور شہزادیاں سر و قد کھڑی ہو گئیں۔ بادشاہ سلامت نے انہیں دیکھا، مسکرائے، کشمیری داروغہ نے کسنو کی مہر توڑی، بھنڈا (حقہ) تیار کیا۔ بادشاہ نے نوش کیا اور محل والیوں سے کچھ دیر باتیں کیں۔ خادمہ مہتاب نے عرض کیا ’’دستر خوان تیار ہے۔‘‘ حکم ہوا ’’اچھا، لیجئے صاحب! خاصے والیوں نے پھرتی سے سات گز لمبا، تین گز چوڑا، چمڑے کا ٹکڑا بچھایا۔ اس کے اوپر لمبی سی چوکی، اس پر پھر چمڑا پھیلایا، اس کے اوپر دستر خوان، کھانا چنا جا رہا ہے۔

لین ڈوری لگی ہے۔ بیس بائیس قسم کی روٹیاں، چپاتیاں، پھلکے، پراٹھے، بائیس تئیس قسم کے چاول، پلاؤ، بریانی مز عفر، نرگسی کوفتے، شولہ کھچڑی وغیرہ۔ قورمے آئے تو وہ بھی درجنوں قسم کے مرغ، مچھلی، ہرن کے کباب، مٹھائیاں، جن کے نام بھی اب صرف کتابوں میں رہ گئے ہیں مثلاً دُرّ بہشت اور موتی پاک۔ مشک زعفران اور کیوڑے کی خوشبو سے فضا مہک اٹھی۔

کھانوں کے نام:

چپاتیاں، پھلکے، پراٹھے، روغنی روٹی، برہی روٹی( دال یا بھرتہ بھری روٹی)، بیسنی روٹی، خمیری روٹی، نان، شیرمال، گاؤدیدہ، گاؤ زبان، قلچہ، باقر خانی، غوصی روٹی ( کیک یا پیسٹری نما روٹی)، بادام کی روٹی، پستے کی روٹی، چاول کی روٹی، گاجر کی روٹی، مصری کی روٹی، نان پنبہ( ایک قسم کی ولایتی روٹی، میدے کی بنی نرم ڈبل روٹی جو دلی کے آخری بادشاہ اور امراء و نوابین کے کھانوں میں شامل تھی)، نان گلزار( ایک قسم کی ولایتی روٹی، پھول یا ستارے کی شکل کی بنی ہوئی روٹی)، نان قماش ( ایک قسم کی روٹی جو بہت باریک اور خستہ ہوتی ہے)، بادام کی نان ختائی، پستے کی نان ختائی، چھوارے کی نان ختائ، یخنی پلاؤ، موتی پلاؤ، نور محل پلاؤ، نکتی پلاؤ، فالسائی پلاؤ، آبی پلاؤ، سنہری پلاؤ،روپہلی پلاؤ، بیضہ پلاؤ، انناس پلاؤ، کوفتہ پلاؤ، بریانی پلاؤ، چلاؤ(مختلف سبزیوں کا پلائو جیسے کہ مٹر چلاؤ)، سارے بکرے کا پلاؤ، بونٹ پلاؤ( هرے چنوں کا پلاؤ)، شولہ( گوشت آمیز کھچڑی)، کھچڑی، کشمش پلاؤ، نرگسی پلاؤ، زمردی پلاؤ، لال پلاؤ، مزعفر پلاؤ، قبولی، تاہری، متنجن، زردہ، مزعفر (زعفران کی آمیزش والی سویاں)، سویاں، من و سلویٰ، فرنی ، کھیر، بادام کی گھیر، کدو کی کھیر، گاجر کی کھیر، کنگنی کی کھیر، یاقوتی، نمش، دودھ کا دلمہ، بادام کا دلمہ، سموسے سلونے میٹھے، شاخین، کھجلے، قتلمے، قورمہ، قلیہ ( گوشت کا بھنا سالن جس میں خشخاش لازمی جز ہوتی ہے)، دوپیازہ، ہرن کا قورمہ، مرغ کا قورمہ، مچھلی، بورانی( یہ ایک افغانی ڈش ہے جو کدو ، پنیر، کھٹی کریم اور پودینے سے بنائ جاتی ہے، ایران اور افغانستان میں مقبول عام ہے)، رائتہ،دوغ ( دہی کا پتلا لسی نما رائتہ) کھیرے کی دوغ، ککڑی کی دوغ، پنیر کی چٹنی، سمنی، آش، دہی بڑے، بینگن کا بھرتا، آلو کا بھرتا، چنے کی دال کا بھرتہ، ( دلمہ جنوبی بھارت کی ڈش ہے جس میں مختلف دالوں اور سبزیوں کا ملا کر سالن بنایا جاتا ہے۔ گوشت سے پرہیز کرنے والے ہندو کا روزانہ کا کھاجا ہے) آلو کا دلمہ، بینگن کا دلمہ،کریلوں کا دلمہ، بادشاہ پسند دال، بادشاہ پسند کریلے، سیخ کے کباب، شامی کباب، گولیوں کے کباب، تیتر کے کباب، بٹیر کے کباب، نکتی کباب، نورات کے کباب، ختائی کباب، حسینی کباب، روٹی کا حلوہ، گاجر کا حلوہ، کدو کا حلوہ، ملائی کا حلوہ، پستے کا حلوہ، رنگترے کا حلوہ، آم کا مربہ، سیب کا مربہ، بہی کا مربہ، ترنج کا مربہ، کریلے کا مربہ، رنگترے کا مربہ، لیموں کا مربہ، انناس کا مربہ، گڑھل کا مربہ، بادام کا مربہ، ککروندے کا مربہ، بانس کا مربہ، ان ہی سب قسموں کے اچار، بادام کے نقل، پستے کے نقل، سونف کے نقل، خشخاش کے نقل، مٹھائ کے رنگترے، شریفے، جامنیں امرود ، انار پھل وغیرہ اپنے اپنے موسم میں ۔۔۔۔۔ گیہوں کی بالیں مٹھائ کی بنی ہوئ، حلوہ سوہن گری کا، پپڑی کا، گوندے کا، حبشی، لڈو موتی چور کے، بادام کے، پستے کے، ملائ کے، لوزات بادام کی، مونگ کی، پستے کی، ملائ کی، (لوزات قتلیوں والے حلوے کو کہتے ہیں)، پیٹھے کی مٹھائ، پستہ مغزی، امرتی، جلیبی، پھینی، برفی، قلاقند، موتی پاک( ناریل سے بنی مٹھائ پاک کہلاتی ہے) ، در بہشت، بالو شاہی، اندرسے کی گولیاں، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب چیزیں قابوں ، طشتریوں، رکابیوں، پیالوں پیالیوں میں قرینے سے چنی گئیں۔ بیچ میں سفلدان( ایک برتن جو دسترخوان پر رکھا جاتا ہے جس میں ہڈیاں وغیرہ ڈالی جاتی ہیں) رکھ دئیے گئے، اوپر نعمت خانہ کھڑا کردیا تاکہ مکھیاں وغیرہ تنگ نہ کریں، مشک ، زعفران کیوڑے کی مہک سے مکان مہک رہا ہے، دستر خوان چاندی کے ورقوں سے جگمگا رہا ہے۔ چلمچی ( بڑا کٹورے نما برتن جس میں ہاتھ دھوئے جاتے ہیں، آفتابہ ( لوٹا)، بیسندانی، چنبیلی کی کھلی، صندل کی ٹکیوں کی ڈبیاں ایک طرف زیر انداز پر لگی ہوئ،

بادشاہ کے دائیں طرف ملکہ وہ بیگمات اور بائیں طرف شہزادے شہزادیاں۔ رومال خانے والیوں نے زانوپوش گھٹنوں پر ڈال دئیے، دست پاک آگے رکھدئے۔ ہر خاصہ مہر بند، داروغہ خاصے کی مہر بادشاہ کے سامنے توڑتا اور بادشاہ کو پیش کرتا۔ بادشاہ سمیت سب آلتی پالتی مارکے نظریں جھکائے بیٹھے ہیں۔ آج کل کھانے والے صرف ایک نیپکن رکھتے ہیں۔ یہاں زانو پوش، دست پاک، بینی پاک لیے رومال خانے والیاں کھڑی ہیں۔ بادشاہ نے کسی کو اُلش( اپنا جھوٹا یا چھوڑا ہوا کھانا) مرحمت فرمایا تو اس نے سرو قد کھڑے ہو کر آداب کیا۔ کھانے کے بعد دعا مانگی گئی۔ بیسن، کھلی اور صندل کی ٹکیوں سے ہاتھ دھلائے گئے۔ بھِنڈا نوش کیا گیا۔

دوپہر کی نوبت بجی، بادشاہ خواب گاہ میں تشریف لے گئے۔ پلنگ خانے والیوں نے پلنگ پوش، تکیے ، گاؤ تکئے، دلائی اور پائنتی لگا کر پلنگ تیار کیا۔ بادشاہ خواب گاہ میں آئے، بھنڈا نوش کیا، کوئ گھنٹے بھر بعد آب حیات مانگا۔ آبدار خانے کے داروغہ نے گنگا کا پانی جو صراحیوں میں بھرا برف لگا ہے جھٹ ایک توڑ کی صراحی نکال مہر لگا کر گیلی صافی میں لپیٹ کر خوجے کے حوالے کی۔ اس نے بادشاہ کے سامنے مہر توڑی اور چاندی کے برتن میں پانی نکال کر پیش کیا۔ بادشاہ کے پانی پیتے وقت سب ادب سے کھڑے ہو گئے۔ اس کے بعد سب مجرا( جھک کر سلام کرنا) بجا لائے۔ ایلو وہ دوپہر بجی ( دن کے بارہ بجے) بادشاہ پلنگ پر دراز ہوگئے۔ خوابگاہ کے پردے گرادئیے گئے۔ مٹھی چاپی والیاں( مساج مالش کرنے والی خادمائیں) آ بیٹھیں۔ ایسی چپ طاری ہو گئی کہ مجال کوئی ہونہہ بھی کر سکے۔

لو اب ڈیڑھ پہر باقی رہ گیا ہے۔ بادشاہ بیدار ہوئے، وضو کیا، ظہر کی نماز ادا کی، کچھ لوگوں کی عرض و معروض سنی، کچھ بات چیت کی کہ اتنے عصر کا وقت ہوگیا۔ عصر کی نماز پڑھی، وظیفہ پڑھا، ( شکر ہے کی مغلوں کے آخری دور تک چائے کا رواج عام نہ ہوا تھا ورنہ بعد عصر بادشاہ سلامت کی چائے کے ساتھ بھی جانے کون کون سے انواع اقسام کے لوازمات پیش کئے جاتے)۔ اس کے بعد جسولنیوں نے عرض کیا کہ عملہ خاص حاضر ہے۔ یہ سن کر بادشاہ جھروکے میں آ بیٹھے۔ جسولنی نے سب کو خبردار کیا، سپاہیوں نے سلامی اتاری، امیر امرا  جھروکے کے نیچے بادشاہ کے دیدار کو آ کھڑے ہوئے۔ مغرب کی اذان پر بادشاہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ مغرب کی نماز پڑھی، وظیفہ پڑھا۔ اتنے جھروکے کے نیچے کھڑے سپاہیوں نے دردیان( شام کے وقت بجایا جانے والا باجا) بجانا شروع کیا۔ نقار خانے میں نوبت( نقارہ) بجنا شروع ہوئی۔

لو جی رات ہوئ۔ مشعلچیوں نے روشنی کی تیاری کی، جھاڑ فانوس، فلتیل سوز ( تیل میں فلیتہ جلانے والے چراغ) یک شاخی، دو شاخی، سہ شاخی اور پنج شاخی روشن کئے گئے۔ پنچیاں، مشعل اور لالٹینیں روشن ہوئیں۔ چار گھڑی رات آئی۔ روشن چوکی کا گشت شروع ہوا۔ طبلہ نفیری ساتھ بجتی ہوئی۔ مشعل بردار ساتھ ساتھ۔ دیوان عام اور اور دیوان خاص سے ہوتا ہوا جھروکوں کے نیچے آیا۔ عشا کا وقت ہوا۔ نماز وظیفے سے فارغ ہوئے تو ناچ گانے کی تیاری شروع ہوئی۔ تان رس خان چوکی کے طائفے حاضر ہوئے۔ قناتوں کے پیچھے سازندے طبلہ، سارنگی تال کی جوڑی بجا رہے ہیں، ناچنے والی بادشاہ کے سامنے ناچ رہی ہے۔ وہ ڈیڑھ پہر رات کی توپ چلی، دھائیں۔ پھر اسی طرح خاصے کی تیاری ہوئی۔ خاصہ کھایا، بھنڈا نوش کیا۔ وہی ایک گھنٹے بعد آب حیات طلب کیا۔ آدھے رات کی نوبت بجی۔ آرام فرمانے لیٹ گئے۔ پھر وہی مٹھی چاپیاں والی۔ داستان گو حاضر ہوئے۔ داستان ہونے لگی۔ حبشنیاں، ترکنیاں، قلمقانیاں پلنگ کے پہرے کو آ موجود ہوئیں۔ حبشی، قلار( عصا بردار جو بادشاہ کی سواری کے آگے چلتے تھے)، پیادے اور دربان ڈیوڑھیوں میں اپنی اپنی جگہ ایستادہ ہوگئے۔ حکیم، طبیب خواص اپنی اپنی چوکی میں حاضر ہوئے۔ صبح ہوئی۔

حوالہ:

یہ خلاصہ منشی فیاض الدین کی کتاب بزم آخر سے لیا گیا ہے جو کہ 1920 میں شائع ہوئی تھی۔ شروع کے دو پیرا گراف ظفر شوق رنگ سے بھی لئے گئے جو دراصل بزم آخر ہی سے اخذ کردہ ہیں۔ منشی فیاض الدین صاحب مرزا محمد ہدایت افزا عرف مرزا الہی بخش کے ملازم تھے۔ شہزادہ الہی بخش نے اپنا بچپن و جوانی قلعہ معلہ میں گزرا۔ انہوں نے ہی منشی صاحب کو قلعہ کی زندگی کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا، جسے منشی صاحب نے جوں کا توں قلمبند کردیا۔ اصل کتاب زرا نستعلیق اردو اور فارسی کے الفاظ پر مشتمل ہے اس لئے میں نے اس مضمون کو سادہ زبان میں تحریر کیا ہے اور جہاں جہاں ضرورت محسوس کی نامانوس الفاظ کے معنی بھی دے دئے ہیں۔ آپ کے کمنٹس کا انتظار رہے گا۔ شکریہ۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔