مقصدِ حیات

تحریر: تسمیہ شیخ

 

زندہ فرد از ارتباطِ جان و تن

زندہ قوم از حفظِ ناموسِ کہن

مرگِ فرد از خشکیِ رودِ حیات

مرگِ قوم از ترکِ مقصودِ حیات

اس کائنات میں ہر چیز کے ظہور کا ایک مقصد ہے۔ ایسے ہی مخلوق کی پیدائش کا بھی کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔ اگر زندگی میں اپنے ہونے کا مقصد ہی فوت ہوجاۓ تو کیا فائدہ ہما رے ہونے یا نہ ہونے کا؟

یہ جانتے ہوۓ بھی کے یہ زندگی بس عارضی ہے، انسان حرص کی بھٹی میں سے سونا سینچ رہا ہے۔ اصل زندگی تو موت کے بعد شروع ہوگی نا، اور وہی زندگی مستقل رہےگی۔ انسان شاید بڑا ہی بد بخت ہے ساری عمر گنوا کر بھی موت تک لاحاصل چیزوں تک ہی دسترس حاصل کرپاتا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اس دنیا میں حاصل کی تمنا میں انسان کو آخر میں لا حاصل کا ہی تحفہ ملتا ہے، کیوں کہ حاصل مکمل ہوتا ہے اور مکمل تو کچھ بھی نہیں ہے، سوائے اس پاک ذات کے۔

انسان در بدر بھٹکتا ہے لیکن روح کی سیرابی نہیں ہوتی اور جسم کی میعاد پوری ہو جاتی ہے۔ ساری عمر گزر جاتی ہے لیکن انسان کی ناقص عقل بس بنیادی زندگانی کی ضرورتوں میں اصل اور اشد ضرورتوں کو نظر انداز کر جاتی ہے۔ اگر یہ فلسفہ انسان کی سمجھ میں آجا ئے تو انسان دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکتا ہے۔

جسم کی ضرورتیں تو کہیں ناکہیں کیسے بھی کر کے پوری ہو ہی جاتی ہیں لیکن روح کی پیاس بجھتی نہیں ہے۔ روح کی اصل تلاش انسان کو ساری عمر بےچین کیے رکھتی ہے، اس لیے زندگی میں مقصد کو سمجھنے کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے یہ تو خود ایک کن کی محتاج ہے جیسے ہی حکم ہوا فیکون ہو جاۓ گا اور موت رونما ہو جاۓ گی، چناچہ اس سے پہلے کہ زندگی کی شا م ہوجاۓ، سنبھلنا انسان کے حق میں بہتر ہے، کیوں کہ زندگی گرنے کا زیادہ اور سنبھلنے کا موقع کم دیتی ہے، اس لیے جتنی جلدی ذہن کو اس حقیقت سے آشنا کروا دیا جائے تو بہتر ہے، کیوں کہ کہا جاتا ہے زندگی موقع کم دھوکا زیادہ ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔