انسانوں میں کینسر کُش وائرس کے تجربات کا سلسلہ شروع
لاس اینجلس: انسانی تاریخ میں اولین بار کسی مریض پر سرطان ختم کرنے والے تبدیل شدہ وائرس کی آزمائش کا آغاز کیا گیا ہے، توقع ہے کہ اس طرح کینسر کا نیا علاج سامنے آسکے گا۔
ماہرین امراض سرطان نے ایک اونکولائٹک یا کینسر کُش وائرس جینیاتی سطح پر تبدیل کیا ہے اور اسے ایک دوا میں ملایا جسے CF33-hNIS کا نام دیا گیا ہے تاہم اس کا سادہ نام ویکسینیا بھی ہے۔
سی ایف 33 ایچ این آئی ایس خسرے کا تبدیلی شدہ وائرس ہے جو بیماری تو نہیں پیدا کرتا بلکہ سرطانوی خلیات میں گھس کر اپنی تعداد بڑھاتا ہے اور یہاں تک متاثرہ خلیے کو پھاڑ دیتا ہے۔ اب وائرس کے سیکڑوں ہزاروں نئے ذرات پیدا ہوتے ہیں جو اینٹی جن کا کام کرتے ہوئے جسم کے اپنے دفاعی نظام کو متحرک کرکے اطراف کے سرطانی خلیات پر حملہ کردیتے ہیں۔ یوں یہ دوطرح سے کام کرتا ہے۔
جانوروں پر انہیں آزما کر حوصلہ افزا نتائج ملے ہیں لیکن اب تک کسی انسان پر آزمائش نہیں کی گئی تھی۔ اب لاس اینجلس کے سٹی آف ہوپ کینسر مرکز اور آسٹریلوی امیوجین کمپنی نے انسانوں پر پہلی آزمائش کا اعلان کیا ہے۔
پہلے مرحلے میں 100 افراد پر اس طریقہ علاج کے محفوظ ہونے کا جائزہ لیا جائے گا۔ تاہم مرکزی سائنس داں ڈیننگ لی نے بتایا کہ اونکولائٹک خلیات سرطان کے خلاف جسم کا مدافعتی نظام بڑھاسکتےہیں اور بسااوقات امینوتھراپی سے بھی مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ سی ایف 33 ایچ این آئی ایس سے مریضوں کے معالجے میں مدد ملے گی۔
تجربے میں شامل تمام 100 افراد کے جسم میں سرطان کے ٹھوس اور بڑے پھوڑے ہیں جو پہلے دو معیاری علاج کراچکے ہیں۔ تمام مریضوں کے گوشت یا رگ میں براہِ راست کم شدت کی دوا کا ٹیکہ لگایا جائے گا۔ اس دوران ڈاکٹروں کی ایک ٹیم تمام مریضوں کا معائنہ کرے گی۔
دوا میں شامل ’ہیومن سوڈیم آیوڈائیڈ سمپورٹر‘ یا ایچ این آئی ایس ایک طرح کا پروٹین ہے جو بدن میں جاکر وائرل کی بڑھتی تعداد، کینسر خلیات کی تباہی اور دیگر معمولات کی تصویر کشی میں مدد فراہم کرے گا۔
اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ مریض پر دوا کے اثرات اور کسی طرح کے منفی خطرات کو معلوم کیا جائے جو سائنسدانوں کا اولین مقصد بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق دوا کی آزمائش دو سال تک جاری رہے گی۔