فوجی انخلا، امریکا کو تاخیر پر طالبان کی سنگین نتائج کی دھمکی
کابل: امریکا کو طالبان نے افغانستان سے اپنی اور اتحادی افواج کے انخلا کے لیے یکم مئی کی آخری تاریخ سے متعلق معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کی صورت سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق طالبان نے ماسکو میں ایک پریس کانفرنس کے دوران انتباہ جاری کیا۔
امریکی صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ طالبان سے طے شدہ معاہدے پر نظرثانی کررہی ہے۔
جوبائیڈن نے ایک انٹرویو میں نشریاتی ادارے ‘اے بی سی’ کو بتایا تھا کہ یکم مئی کی آخری تاریخ ہوسکتی ہے لیکن اگر ڈیڈ لائن میں توسیع کی جاتی ہے تو یہ زیادہ لمبی نہیں ہوگی۔
طالبان کی جانب سے مذاکرات کرنے والی ٹیم کے ایک رکن سہیل شاہین نے صحافیوں سے کہا کہ ‘انہیں جانا ہوگا اور یکم مئی سے آگے امریکی فوجیوں کا رکنا دراصل معاہدے کی خلاف ورزی تصور ہوگا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اور معاہدے کی خلاف ورزی ہماری طرف سے نہیں ہوگی، جس کے نتیجے میں اس کا ردعمل ظاہر ہوگا’۔
رکن سہیل شاہین نے اس کے بارے میں تفصیل نہیں بتائی کہ یہ ردعمل کیا شکل اختیار کرے گا، لیکن فروری 2020 میں انہوں نے جس معاہدے پر دستخط کیے تھے، اس پر عمل کرتے ہوئے طالبان نے امریکی یا نیٹو فورسز پر حملے نہیں کیے حتیٰ کہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران غیراعلانیہ بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
طالبان رہنما نے کہا کہ ‘ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا، وہ دستبردار ہوجائیں گے اور ہم افغانستان کے مسئلے کے حل اور پُرامن تصفیہ پر توجہ مرکوز کریں گے، تاکہ ایک سیاسی لائحہ تک پہنچیں اور مستقل اور جامع جنگ بندی ہوسکے’۔
انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ طالبان اسلامی حکومت کے مطالبے پر قائم ہیں۔
سہیل شاہین نے اس کی تفصیل نہیں بتائی کہ اسلامی حکومت کا ڈھانچہ کیسا ہوگا۔
علاوہ ازیں انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا طالبان انتخابات کو قبول کریں گے یا نہیں لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صدر اشرف غنی کی حکومت ان کی اسلامی حکومت کی تعریف کے مطابق نہیں۔
خیال رہے کہ روس، چین اور پاکستان کے ساتھ امریکا نے بھی افغانستان کے متحارب فریقین سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کردیا ہے۔
طالبان کا ایک وفد افغانستان میں جنگ کے خاتمے سے متعلق مستقبل کے لائحہ عمل پر افغان حکومت سے ماسکو میں ملاقات جاری ہے جس میں دیگر فریقین بھی موجود ہیں۔