ع عشق

"ع” عشق…….اک لفظ میں چھپا وہ دریا، جو بے تاب قلوب کو ازل سے سیراب بھی کرتا چلا آیا ہے اور سراب کی صورت بھی دھارتا رہا ہے- یہ ایک کیفیت کا نام ہے جو ضرورت کی محتاج نہیں اور نہ ہی کوئی مادہ پرست عنصر اس پر غالب ہے- کیفیات ہر عام و خاص کو حاصل نہیں ہوتیں اور نہ ہی کیفیات کا اصل شکل میں بیان کرنا ممکن ہے، کہ جس سے صاحب کیفیت گزرتا ہے- ع عشق کو بعض اوقات مجاز کی انتہائی تشکیل بھی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہ حقیقت کا مشاہدہ ہوتا ہے- لیکن یہ تصور انھی کے لیے ہے جو وجود کو اہم سمجھتے ہیں اور وجودی عشق کے قائل ہوتے ہیں- اسی لیے ہی شاید کسی عاشق نے کہا تھا،
"یار کو ہم نے جابجا دیکھا
کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا”
ع عشق وجدانی ہے، اور کسی پابندی کا قائل نہیں لیکن عقل یعنی شعور اس وجدان کو سمجھنے سے قاصر ہے اور یوں ازل سے عشق و عقل باہم برسر پیکار ہیں- چونکہ انسان مٹی اور عشق کی ملاوٹ کا شاہکار ہے، تو یہ عشق اس کی فطرت ٹھہرا- ع عشق دراصل حقیقت ہی کا نام ہے، یعنی حقیقت سے آشنائی اور لازوال سے باہم جڑنا- انسان سےبہت پہلے خالق نے عشق کی ایک بہترین مثال دکھائی اور اس عاشق و معشوق کے بارے شاعر مشرق نے کہا،
"نگاہِ عِشق و مَستی میں وہی اوّل ، وہی آخر
وہی قُرآں، وہی فُرقاں، وہی ٰیس ٓ، وہی طہٰ”
یعنی عشق خالق کا اور معشوق اشرف الانبیاء… وہ انبیاء جو تمام مخلوق سے افضل ہیں اور ان سے بھی افضل یہ معشوق خدا، سید الانبیاء ٹھہرے- جیسے کسی قیمتی شے کو مختلف کپڑوں میں لپیٹا جائے، اور پھر اگر اسے کھولنے لگیں تو سب سے آخر میں وہی کپڑا نکلے گا جسے سب سے پہلے رکھا گیا تھا- یہی فارمولا سید الانبیاء پر لاگو ہوتا ہے اور انھی کی زبان سے نکلے یہ الفاظ عاشق کے عشق کی لا جواب مثال ہیں؛
کُنْتُ نَبِیَّاً وَ آدَمُ بَیْنَ الْماَ ئِ وَالطِّیْن یعنی میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم ابھی مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔
یعنی ع عشق ہی حقیقت ہے اور یہی راہ ہے حقیقت تک پہنچنے کی- مزید ع عشق اس ہجر کو ختم کرنے کا ذریعہ بھی ہے جو روز اول ہی انسان کا مقدر بن گیا تھا-

انسان جس نے ارض و سماء پر قدم رکھتے ہی عشق کو اپنی عقلی و بدنی ضروریات پر تقسیم کر دیا- یوں جب حواس خمسہ اس پر حاوی ہوئے تو وہ پکار اٹھا کہ، عشق مجازی و عشق حقیقی؛ مجاز ہی حقیقت کی جانب لے جانے کی استطاعت رکھتا ہے- لہذا عشق مجازی انسان میں حلول کرتا چلا گیا اور ہر انسان کے مطابق اپنی ہیئت بھی بدلتا رہا- مگر عشق، حقیقی ہے اور مجاز کے ساتھ کبھی مذاکرہ نہیں کرتا اور نہ ہی یہ رستہ اور طریقہ ہے جو عشق مجازی سے عشق حقیقی کی جانب لے جانے کی اوقات رکھتا ہو- اگر ایسا ہوتا تو پھر ہرحقیقی صاحب کیفیت مجازی عشق میں مبتلا ہوتا اور بدنی حرص و ہوس کا شکار بھی- ع عشق وہ دریا ہے، جس میں پورا عالم مختلف کناروں سے شامل ہو کر بہتا ہے – جہاں عبد عین عبادت اور عقیدہ عین عمل کرتا ہے – جہاں عقل نہیں عشق کسی عالِم کو ایسا علم عطا کرتا ہے کہ پھر "عین الفقر” وجود میں آ جاتا ہے – "ع” عشق وہ دریا ہے کہ کبھی تو اس میں کودنے والے کو عین الیقین سے نواز دیا جاتا ہے جس کے بعد وہ کسی عارضی کنارے کا سہارا نہیں ڈھونڈتا اور کبھی "ع” عشق میں مخمور "علی” عین دکھنے کا کہہ کر ایسا مرہم پاتا ہے کہ پھر کوئی مرحب مرحب نہیں رہتا، کوئی خیبر خیبر نہیں رہتا – ” ع” عشق وہ دریا ہے جس میں خطاب کا بیٹا غصے سے ڈوبکی لگاتا ہے مگر ایسا فاروق بن کر ابھرتا ہے کہ قیصر و کسری کسی حیرت کدے میں کھو جاتے ہیں – "ع” عشق وہ "عبداللہ” وجود میں لاتا ہے کہ جس پر سرخ اونٹ قربان ہوتے چلےجاتے ہیں اور پھر جان کی قیمت ہی سرخ اونٹ آن ٹھہرتی ہے – ع عشق…… جو ابدی ہے، جسے زوال نہیں جو انسان کی روح میں اترا ہوا ایک آب حیات کا گھونٹ ہو جیسے- مگر شرط وہی ہے کہ جس پہ شعور حیران ہو، انسان ساکت ہو جائے اور کتاب عقل جسے وہ ہتھیار کل سمجھتا ہے وہ دھری کی دھری رہ جائے اور وہ کہہ اٹھے،
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی”-

ع عشق…. دل کا مکین ہے- جہاں دل ہی نہ ہو، جہاں جہالت کا قفل منہ چڑاتا ہو یا مجاز کا بوسیدہ پردہ لپٹا ہو، وہاں عشق کا بھلا کیا کام- عشق تو وہاں انسان کے ہاتھوں لٹا جائے گا اور اس لٹے ہوئے، جلے ہوئے کی جو راکھ ہو گی وہ عشق مجازی کہلائے گی- اب یہ راکھ، عشق مجازی کا روپ دھارے جب مجازکی پھونکوں سے سلگے گی تو پھر وہ چنگاریاں پھوٹیں گی جو ع عشق کے دریا پر بھی جل اٹھنے کی وقتی طاقت رکھتیں ہیں- یوں ع” عشق وہ دریا بن جاتا ہے، جس کے ایک گھونٹ کی خاطر کوئی مہینوال اس کی بے رحم موجوں کی نظر ہو جاتی ہے -"ع” عشق جب عورت کا روپ دھارتا ہے، تو وہ دریا کی” جل پری” بن جاتا ہے جو کبھی کسی” سسی” کا روپ دھارتی ہے اور کبھی” لیلی” بن جاتی ہے- بس پھر اس جل پری کی کھوج میں، مجنوں، فرہاد، پنوں، رام سب کسی نہ کسی کنارے سے اس میں کود پڑتے ہیں اور ع عشق کے مجازی دریا کی تند و تیز لہروں کی نظر ہونے لگتے ہیں- ع عشق…. مجاز کے روپ میں وہ بے تاب و بے قرار دریا، جہاں محبوب و محب اور عاشق و معشوق، ماہی بے آب کی مانند تڑپتے، لرزتے اور ساکت ہونے لگتے ہیں- جس میں کودنے کے بعد کنارہ ملنا ناممکن ہو جاتا ہے- "ع”عشق کا دریا جس میں پورا عالم بہتا ہے مگر چند حاملین ہی جذب و مستی کے سیپ ڈھوند پاتے ہیں، اور وہ دریا عشق حقیقی کہلاتا ہے- وگرنہ اکثر تو بس بہتے چلے جاتے ہیں، مجاز کے بے سمت، بے مقصد، بے سہارا اور بے کنارہ لہروں کے ساتھ – نہ سیپ ڈھونڈ پاتے ہیں اور نہ ہی کوئی مضبوط کنارہ- اسی لیے کسی صاحب کیفیت نے صدا لگائی تھی،
"چلی سمت غائب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا،
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی،
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی لیا درس نسخہ عشق میں،
کہ کتاب عقل کی طاق پر جو دھری تھی یونہی دھری رہی”

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔