شاہد خاقان عباسی اور ایس ایس جی سی کا بحران
پاکستان کو درپیش معاشی مسائل سے انکار ممکن نہیں، مگر غیرجانب دار تجزیہ کار متفق ہیں کہ کرپشن کے خاتمے کے بغیر پاکستانی معیشت کی ترقی ممکن نہیں، وزیر اعظم عمران خان کا وژن بھی صنعتی شعبے کا استحکام ہے۔
اس ضمن میں جہاں پی آئی اے سے پی ٹی وی تک اہم قومی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے، وہیں سوئی سدرن گیس کمپنی کو مسائل کی دلدل سے نکلنا بھی ضروری ہے۔
دل چسپ امر یہ ہے کہ جب ایس ایس جی سی میں بے ضابطگیوں کا ذکر آتا ہے، ہمارے ذہن میں پی ٹی آئی حکومت کے سخت ناقد، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی تصویر ابھرتی ہے، جن کے ساتھ مفتاح اسماعیل اور ادارے کے ایم ڈی امین راجپوت کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان معیشت کی ترقی جن ادارے پر انحصار کرتی ہے، اس میں ایس ایس جی سی نمایاں ہے، جسے آج 25 ارب روپے سے زیادہ کے سالانہ گھاٹے کا سامنا ہے۔
نیب کی ایس ایس جی سی سے متعلق ہونے والی انکوائریز میں شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل یہاں تک کہ میاں نواز شریف کے نام کی بازگشت بھی سنائی دیتی رہی، اہم ترین الزام تو یہی تھا کہ جب وہ سابق وزیر پیٹرولیم اور قدرتی وسائل تھے، ایل این جی کی درآمدات میں بے ضابطگیاں ہوئیں، جن میں وہ براہ راست ملوث تھے۔
اب توجہ اس ادارے کے مسائل پر مرکوز کرتے ہیں، سات ہزار ملازمین پر مشتمل ایس ایس جی سی پاکستان میں گیس کی فراہمی کا سب سے بڑا ادارہ تصور کیا جاتا ہے، یہ پورے ملک کو توانائی کی فراہمی اور حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے ایک اسٹریٹجک کھلاڑی ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں گیس کی ترسیل اور تقسیم براہ راست اسی کے ہاتھ میں ہے۔
بدقسمتی سے یہ اہم ترین ادارہ متعدد داخلی اور خارجی عوامل کی وجہ سے اس کارکردگی کا مظاہر نہیں کرسکا، جس کی اس توقع کی جارہی تھی۔
کراچی کو آٹھ صنعتی زونز کے ساتھ ملکی معیشت کا مرکز تصور کیا جاتا ہے، جہاں نوئے فی صد صنعتوں کا انحصار گیس پر ہے، یہ صنعتیں اپنی ضروریات پورا کرنے کے لئے گیس پر انحصار کرتی ہیں۔
لہٰذا ایس ایس جی سی کا زوال صنعتی نظام کو براہ راست متاثر کرتا ہے اور اس کے سدھار کے بغیر حکومتی وژن حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
بدقسمتی سے پی ایم ایل این اور پی پی پی کے دور حکومت میں اس منافع بخش ادارے میں سیاسی مداخلت بہت بڑھ گئی تھی۔
ماضی میں ڈاکٹر عاصم کے خلاف، جو آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی تصور کیے جاتے ہیں، کرپشن کے سینگین الزامات کے تحت تفتیش کی گئی۔ اس ادارے کے اہم عہدے داروں کی ن لیگ سے قربت بھی اسے بہت مہنگی پڑی۔ ناقدین کے بہ قول سابق دور حکومت میں اس کی بہتری پر کم توجہ دی گئی، لوٹ مار کو بڑھاوا دیا گیا۔
یہ ادارہ 1955 میں قائم کیا گیا، ابتدائی دستاویزات کے مطابق گیس کی فراہمی کے لیے نصب پائپ لائنوں کی عمر بیس سال تھی، مگر بیش تر مقامات پر انھیں تاحال تبدیل نہیں کیا گیا۔ کسی قسم کی اپ گریڈیشن نہیں کی گئی۔ 60 فی صد سے زیادہ گیس پائپ لائنز 50 سال سے زیادہ پرانی ہیں۔ ملک کے ایک بڑے ادارے کا اپنے انفراسٹرکچر پر توجہ نہ دینا پریشان کن ہے۔
گیس کی تقیسم پر اور اس کی قیمت پر عوام میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں موسم سرما میں جماعت اسلامی کی جانب سے اجتجاج بھی کیا گیا تھا۔
ماہرین کے مطابق گھریلو اور صنعتی صارفین کی تقسیم واضح نہیں، ریٹ بھی متوازن نہیں ہیں، سپلائی میں بھی تسلسل کا فقدان ہے۔ اسی بندش کی وجہ سے سی این جی اسٹیشنز پر گیس کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ آئین کے آرٹیکل 158 کے تحت کسی بھی معدنی ذخیرے پر پہلا حق اس صوبے کا ہوتا ہے، جہاں یہ دریافت ہوتا ہے۔ گیس کی ملکی پیداوار میں سندھ کا 74 فیصد حصہ ہے، لیکن اسے صرف 38 فیصد گیس دی جاتی ہے۔
یہی وہ اسباب تھے، جن کے باعث رواں برس کے آغاز میں صوبائی محتسب کے پاس شکایتوں کی تعداد کے حوالے سے کے الیکٹرک کے بعد دوسرا نمبر سوئی سدرن گیس کا تھا۔
یہ نکتہ بھی پیش نظر رہے کہ ماضی میں امین راجپوت کو الزامات کے باعث ایم ڈی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، مگر انھیں دوبارہ ایم ڈی کا عہدہ سونپ دیا گیا۔ ادھر ایل این جی کیس میں شاہد خاقان عباسی کے وعدہ معاف گواہ زہیر صدیقی بورڈ آف ڈائیریکٹر بن گئے۔
جن افراد پر کرپشن اور کرپشن میں معاونت کے الزامات عاید کیے جاتے رہے ہیں، ان کا دوبارہ اہم عہدوں پر فائز ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔
اگر سابق حکمرانوں کی معاونت کرنے والے افراد کو عہدوں پر برقرار رکھا جائے گا، تو وزیر اعظم کے وژن اور معاشی ترقی کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔