آئی ایم ایف کے مطالبات

مہروز احمد
اس میں شبہ نہیں کہ موجودہ حکومت کی کاوشوں سے ٹیکس نظام میں کچھ بہتری ہوئی ہے۔ اصلاحات کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں، ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ٹیکس آمدن بڑھی ہے، لیکن ابھی بھی اس حوالے سے اقدامات کرنے ضروری ہیں۔ پاکستان کا ٹیکس نظام مسلسل مسائل کا شکار رہا ہے اور عالمی مالیاتی ادارہ ٟآئی ایم ایفٞ نے ایک بار پھر ان مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ٹیکس نظام میں اصلاحات کرے، بجٹ کی تیاری میں ڈیٹا کے درست استعمال کو یقینی بنائے اور ٹیکس نیٹ کو بڑھائے۔ آئی ایم ایف کا یہ موقف ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کا ٹیکس نظام نہ صرف معیشت کی پائیدار ترقی کے لیے ناکافی ہے، بلکہ اس سے ملک کی مالیاتی حالت بھی خطرے میں پڑی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکس چوری، کرپشن اور پیچیدہ قوانین کے ذریعے ٹیکس وصولی میں کمی کو اجاگر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ٹیکس دہندگان کی رجسٹریشن اور بے ضابطگیوں کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ٹیکس چوری ایک سنگین مسئلہ ہے جو قومی خزانے کو بے پناہ نقصان پہنچاتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 59 لاکھ ٹیکس گوشواروں میں سے 43 فیصد نے صفر آمدن ظاہر کی، جس کا مطلب ہے کہ ٹیکس دہندگان اپنی حقیقی آمدن چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ پانچ سال میں پاکستان کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 10 فیصد تک محدود رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس صورت حال کا براہ راست اثر ملکی ترقی اور مالی استحکام پر پڑرہا ہے اور آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ حکومت ٹیکس دہندگان کی حقیقی تعداد بڑھائے اور ٹیکس چوری روکنے کے لیے اقدامات کرے۔
پاکستان کے ٹیکس نظام میں سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ غیر رسمی معیشت کا پھیلا¶ اس کی گرفت سے باہر ہے۔ غیر رسمی معیشت میں شامل کاروباروں اور افراد کا کوئی ٹیکس ریکارڈ نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے ٹیکس وصولی میں کمی آتی ہے اور حکومت کو مطلوبہ محصولات حاصل نہیں ہوپاتے۔ آئی ایم ایف نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی تعداد کو کم از کم ڈیڑھ کروڑ تک بڑھائے۔ اس وقت پاکستان میں رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی تعداد 50 لاکھ کے قریب ہے، جو انتہائی کم تعداد ہے، خاص طور پر ایک ملک کی معیشت کے لیے جو تیز ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی کوشش کررہا ہے۔ آئی ایم ایف نے یہ بھی کہا کہ مختلف شعبوں کو دی جانے والی ٹیکس چھوٹ اور مراعات کو فوری ختم کردینا چاہیے۔ یہ ٹیکس چھوٹ اکثر مخصوص کاروباروں یا گروپوں کو دی جاتی ہیں اور اس کا فائدہ صرف چند افراد تک محدود رہتا ہے جب کہ اس کے اثرات عمومی سطح پر معیشت پر منفی پڑتے ہیں۔ پاکستان کے ٹیکس نظام میں ایک اور اہم مسئلہ جعلی رسیدوں اور ریفنڈز کی فراہمی ہے، جو ٹیکس چوری اور دھاندلی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے حکومت کو اس سلسلے میں بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ جعلی رسیدیں کاروباری افراد کو یہ سہولت فراہم کرتی ہیں کہ وہ اپنی حقیقت سے کم آمدن ظاہر کریں، جس کے نتیجے میں ٹیکس کی وصولی میں کمی آتی ہے۔ اسی طرح، ریفنڈ سسٹم میں بھی بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں، جو ٹیکس دہندگان کی جانب سے غلط دعوے اور فراڈ کا باعث بنتی ہیں۔ آئی ایم ایف نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ٹیکس کی وصولی کو موثر بنانے کے لیے تمام کاروباروں کی مکمل رجسٹریشن کی جائے اور جعلی رسیدوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اس کے ساتھ ڈیٹا کی جانچ پڑتال اور اس کی درستی پر مزید توجہ دی جائے، تاکہ کوئی بھی غیر مستند ٹیکس دہندہ نظام میں شامل نہ ہوسکے۔ پاکستان میں معیشت کا غیر رسمی ہونا ایک اور بڑی وجہ ہے جس کے باعث ٹیکس وصولی کم ہورہی ہے۔ آئی ایم ایف نے اس حوالے سے حکومت سے مطالبہ کیا کہ معیشت کو دستاویزی بنایا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو تمام کاروباری سرگرمیوں اور افراد کی رجسٹریشن کو مکمل مانیٹر کرنا ہوگا، تاکہ ٹیکس چوری کی روک تھام کی جاسکے۔ اس کے علاوہ، ایف بی آر کے نظام کو مزید م¶ثر بنایا جائے اور اس میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے، تاکہ ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جاسکیں۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ انتباہ ہے کہ حکومت کو فوری طور پر مزید اصلاحات کی جانب قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو نہ صرف ملک کا بجٹ خسارہ بڑھ سکتا بلکہ معیشت کی پائیدار ترقی بھی متاثر ہوگی۔ یہ وقت ہے کہ حکومت ٹیکس نظام میں بہتری لانے کے لیے مزید جامع حکمت عملی تیار کرے، جس میں تمام کاروباروں کی مکمل رجسٹریشن، ٹیکس چوری کی روک تھام اور ایف بی آر میں شفافیت کے اقدامات شامل ہوں۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ پاکستان کے ٹیکس نظام کی کمزوریوں کو واضح کرتی ہے اور اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ حکومت کو فوری طور پر ٹیکس چوری اور کرپشن کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ، ٹیکس نیٹ کو بڑھانے، ٹیکس چھوٹ اور مراعات کو ختم کرنے اور معیشت کو دستاویزی بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت ان اصلاحات پر عمل درآمد کرتی ہے، تو پاکستان کا ٹیکس نظام مضبوط ہوسکتا اور ملک تیزی سے معیشت کے استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔