آزاد کشمیر: حقِ خودارادیت، عوامی مطالبات اور پاکستان سے اٹوٹ رشتہ
جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی تحریک نے عوامی حقوق کی بحث کو زندہ کیا— مگر قوم پرستی کے کچھ عناصر اسے پاکستان مخالف بیانیے میں بدلنے کی کوشش کررہے ہیں

تحریر: دانیال جیلانی
کیا جہاں کے نذرانے— وہی سب کچھ دے سکتے ہیں جو ایک قوم اپنے وطن کے لیے دیتی ہے؟
آزاد کشمیر اس وقت ایک نہایت حساس اور فیصلہ کن مرحلے سے گزر رہا ہے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی حالیہ ہڑتال اور احتجاج نے ریاستی مسائل کو پوری شدت سے اجاگر کیا ہے۔ خوش آئند پہلو یہ ہے کہ کمیٹی کے بیشتر مطالبات تسلیم کرلیے گئے ہیں اور باقی پر بھی سنجیدگی سے عمل درآمد کیا جارہا ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ عوامی جذبات کی اس تحریک کو بعض قوم پرست عناصر نے اپنے ایجنڈے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی جدوجہد اور پاکستان مخالف بیانیے کے درمیان ایک خطرناک لکیر کھینچی جارہی ہے۔
یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام نے ہمیشہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے اور اس کا مثبت نتیجہ بھی ملا ہے۔ بجلی کے نرخوں میں رعایت اس کی بہترین مثال ہے۔ آج آزاد کشمیر پاکستان کا وہ خطہ ہے جہاں بجلی محض تین روپے فی یونٹ پر دستیاب ہے۔ یہ سہولت پاکستان کے کسی اور صوبے کو میسر نہیں۔
اسی طرح تعلیم کے شعبے میں بھی آزاد کشمیر نے ترقی کی ہے۔ پانچ سے زائد یونیورسٹیاں اور بلند شرح خواندگی اس بات کی علامت ہیں کہ یہ خطہ باشعور اور مستقبل کے لحاظ سے روشن ہے۔
آزاد کشمیر کا سالانہ بجٹ تین سو ارب روپے سے زائد ہے، لیکن ریاست کی اپنی آمدن محض 72 ارب روپے کے قریب ہے۔ ان 72 ارب میں سے بھی 65 ارب روپے صرف ضلع میرپور سے حاصل ہوتے ہیں جب کہ باقی آزاد کشمیر کی آمدن انتہائی محدود ہے۔ اس بڑی خلا کو کون پُر کرتا ہے؟ پاکستان۔
پاکستان ہر سال آزاد کشمیر کے بجٹ میں بھاری رقوم فراہم کرتا ہے تاکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں، پنشنز، ترقیاتی منصوبے، صحت اور تعلیم کے اخراجات پورے ہوسکیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ آزاد کشمیر کی کل آبادی کا قریباً 30 فیصد حصہ سرکاری ملازمین پر مشتمل ہے اور ان کی تمام ذمے داریاں بالآخر پاکستان پر آتی ہیں۔
یہاں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ آزاد کشمیر کے دفاعی اخراجات اس بجٹ کا حصہ نہیں۔ پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر دو مکمل کورز تعینات کر رکھی ہیں، جو ہر لمحہ اس خطے کی حفاظت میں مصروف ہیں۔ ان کی تنخواہیں، ساز و سامان، وسائل اور قربانیاں پاکستان کے دفاعی بجٹ سے پورے ہوتے ہیں۔
پاک فوج نے آزاد کشمیر کے عوام کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ تاریخ کے ہر دور میں کشمیر کی حفاظت پاکستان کی افواج نے کی اور شہداء نے اپنی قربانیاں دی ہیں۔ کیا جہاں کے نذرانے وہی سب کچھ دے سکتے ہیں جو ایک قوم اپنے وطن کے لیے دیتی ہے؟ یہی سوال ہر کشمیری کو سوچنا چاہیے۔
پاکستان اور کشمیر کا رشتہ محض جغرافیہ یا سیاست کا نہیں، بلکہ ایمان اور عقیدے کا ہے۔ یہ رشتہ "لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ” کی بنیاد پر قائم ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیری عوام کو اپنی شہہ رگ سمجھا اور ان کے لیے ہر ممکن قربانی دی۔ اسی لیے جو لوگ پاکستان اور افواجِ پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے ہیں، وہ دراصل ان شہداء کی قربانیوں کے خلاف آواز بلند کررہے ہوتے ہیں جنہوں نے اس مٹی کے لیے اپنی جانیں دیں۔
آزاد کشمیر کے عوام کو چاہیے کہ اپنی آزادی اور سہولتوں کو دیکھتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی حالتِ زار بھی یاد رکھیں۔ وہاں بھارتی افواج نے ظلم و ستم کی انتہا کردی ہے۔ نوجوانوں کو شہید کیا جارہا ہے، خواتین کی عزتیں پامال کی جارہی ہیں، معصوم بچوں کو یتیم بنایا جارہا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ہر سال 27 اکتوبر کو "یومِ سیاہ” کی صورت میں پوری دنیا کو یاد دلائی جاتی ہے کہ بھارت نے اس دن کشمیر پر زبردستی قبضہ کیا تھا۔
یہ مظالم ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان ہی کشمیری عوام کا اصل محافظ اور سہارا ہے۔ پاکستان ہی وہ ملک ہے جو دنیا بھر میں کشمیریوں کی آواز بنتا ہے اور پاکستان ہی وہ قوت ہے جو ان کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرتا ہے۔
یہ درست ہے کہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا کشمیری عوام کا حق ہے، لیکن اسے پاکستان مخالف نعرے بازی میں بدل دینا کسی طور درست نہیں۔ کچھ قوم پرست عناصر اور بیرونی ایجنڈے والے گروہ عوامی جذبات کا غلط استعمال کررہے ہیں۔ ان کا مقصد نہ عوامی مسائل کا حل ہے نہ آزادی کی حقیقی جدوجہد، بلکہ صرف پاکستان کے خلاف نفرت پھیلانا ہے۔
کشمیری عوام باشعور ہیں اور تعلیم یافتہ بھی۔ انہیں چاہیے کہ ان سازشی عناصر کے بہکاوے میں نہ آئیں۔ پاکستان ہی وہ ملک ہے جو ہمیشہ کشمیری عوام کا ساتھ دیتا آیا ہے اور آئندہ بھی دیتا رہے۔