ایس آئی ایف سی کا سندھ اور ملکی ترقی کا عظیم مشن
احسن لاکھانی
پاکستان پچھلے کچھ سال کے دوران انتہائی مشکل دور سے گزرا ہے۔ معیشت کی زبوں حالی اور غریبوں کی بدحالی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پاکستانی روپیہ تاریخ کی بدترین بے وقعتی سے دوچار ہوا۔ ڈالر اسے چاروں شانے چت کرتا دکھائی دیا۔ غریبوں پر مہنگائی کے بدترین عذاب نازل کیے گئے۔ ہر نیا دن گرانی میں اضافے کے ساتھ آتا اور گزر جاتا۔ غریب عوام کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوگیا۔ معیشت کا پہیہ تھم سا گیا۔ ہر شعبہ زبوں حالی اور ترقی معکوس کا شکار دکھائی دیا۔ خدا خدا کرکے حکومت کی مدت اقتدار ختم ہوئی۔ نگراں حکومت نے اقتدار سنبھالا اور بعض انقلابی اقدامات یقینی بنائے تو اس کے نتیجے میں حالات میں بہتری محسوس کی گئی۔ ڈالر، سونا، گندم، کھاد، چینی اور دیگر اشیاء کے ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف سخت کریک ڈائون کا آغاز ہوا۔ ڈالر سمیت انتہائی وافر غیر ملکی کرنسی برآمد کی گئی، ذخائر پکڑے گئے۔ سونا پکڑا گیا۔ گندم، چینی اور دیگر اشیاء کے اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کو پکڑا گیا۔ اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کی راہیں مسدود کی گئیں۔ اس کے نتیجے میں ڈالر کی قدر میں کمی کا سلسلہ شروع ہوا۔ غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو نکالنے کا بڑا فیصلہ کیا گیا۔ اس کی عوام کی جانب سے بھرپور تحسین کی گئی۔
گزشتہ برس خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ اس کا مقصد دفاع، زراعت، معدنیات، آئی ٹی اور توانائی کے شعبوں میں گلف کوآپریشن کونسل یعنی خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری کے عمل کو بہتر بنانا ہے۔ اس حوالے سے بڑی کامیابیاں ملیں اور ملک میں بعض ممالک سے بڑی سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے۔
ایس آئی ایف سی اپنے قیام سے لے کر اب تک کئی راست اقدامات کرچکی ہے۔ اب یہ سندھ کی بے مصرف زمینوں کو قابل استعمال بناکر اس سے بڑے پیمانے پر کاشت کاری، لائیو اسٹاک اور دیگر مقاصد کے استعمال کے مشن پر لگی ہوئی ہے۔ صوبہ سندھ میں کارپوریٹ فارمنگ کے لیے 52 ہزار ایکڑ سرکاری زمین مختص کی گئی ہے۔
سرکاری دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ سندھ کی نگران حکومت نے 52 ہزار ایکڑ سے زائد سرکاری اراضی کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ کے لیے مختص کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
گزشتہ ہفتے نگران سندھ حکومت نے اس منصوبے کے لیے 52713 ایکڑ سرکاری زمین مختص کرنے کی حتمی منظوری دی، جس میں خیرپور میں 28 ہزار ایکڑ، مٹھی میں 10 ہزار ایکڑ، دادو میں 9 ہزار305 ایکڑ، سجاول میں 3 ہزار 408 ایکڑ اور ٹھٹھہ و بدین میں ایک ایک ہزار ایکڑ اراضی ایس آئی ایف سی کے سپرد کی جائے گی۔
یہ زمین ایس آئی ایف سی کی سرپرستی میں دی جارہی ہے جو ایک اعلیٰ سول ملٹری ادارہ ہے۔ دستاویزات میں یہ بھی تجویز کیا گیا کہ زمین پاکستانی فوج کو لیز پر دی جائے، اس بات پر اصرار کیا گیا کہ پاک فوج کے پاس اس کام کے لیے اچھی تربیت یافتہ افرادی قوت موجود ہے۔
زمین کی گرانٹ کو آسان اور ریگولیٹ کرنے کے لیے سندھ حکومت نے برطانوی دور کے قانون، کالونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈز ایکٹ 1912 کے تحت شرائط نامہ بھی جاری کردیا۔
شرائط نامے کے مطابق سرکاری زمین 20 سال کے لیے سرِعام نیلامی کے ذریعے لیز پر دی جائے گی، اس کے بعد کرایہ دار [لیز پر لینے والا] اسے زرعی تحقیق، کاشتکاری، درآمدی متبادل اور مویشیوں کی تحقیق وغیرہ کے لیے استعمال کرے گا۔
سندھ حکومت اس منصوبے سے حاصل ہونے والے کل منافع میں سے 33 فیصدکی حق دار ہوگی۔
اس منصوبے کے ذریعے سرسبز و شاداب سندھ اور پاکستان کا خواب جلد شرمندۂ تعبیر ہوگا۔ ایس آئی ایف سی وادی مہران کی ترقی اور خوش حالی کے مشن پر تندہی سے گامزن ہے۔ یہ سندھ کی وہ زمینیں ہیں جو پچھلے 76 سال سے کسی مقصد کے لیے استعمال میں نہیں لائی جاسکیں اور بنجر پڑی ہیں۔ یعنی کہ یہ عوام کی ہی ملکیت ہوگی اور اُنہی کی ترقی و بہتری کے لیے یہ عظیم منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔
پاک فوج ان زمینوں سے متعلق جدید سائنسی طریقوں سے معلومات اکٹھی کرے گی اور پھر ان کو ان کی استعداد کے مطابق استعمال میں لائے گی۔ زمینوں کی خصوصیات، ماحول، ان کے نیچے پانی وغیرہ اور دیگر معلومات کا پتا لگایا جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت تحقیق کے ذریعے زراعت و دیگر شعبوں کی بہتری پر توجہ دی جائے گی۔ اس منصوبے کے تحت لائیو اسٹاک کے بھرپور فروغ کے لیے کوششیں کی جائیں گی۔ ایس آئی ایف سی بیرونی سرمایہ کار کمپنی کے اشتراک سے اس اراضی سے کم کھاد، ادویہ اور پانی کے استعمال سے بھرپور فصلوں کی پیداوار یقینی بنائے گی۔ اس سے جہاں خوراک کی پیداوار میں خود کفالت کی منزل ملے گی، وہیں بہت سے لوگوں کے لیے روزگار کی راہیں کُھلیں گی۔ بیشتر پس ماندہ گھرانوں کے در پر خوش حالی دستک دے گی، اُن کے سارے غم دُور ہوجائیں گے۔
اس منصوبے سے ملک کی زرعی پیداوار میں قابل قدر اضافے کے ساتھ غذائی قلت کا دیرینہ مسئلہ حل ہوسکے گا۔ لائیو اسٹاک کے فروغ سے ملک معقول زرمبادلہ حاصل کرسکے گا۔ زراعت کے شعبے کو بڑھاوا ملے گا اور یہ سلسلہ پھر ملک کے دوسرے حصوں تک بھی بڑھے گا۔ ملکی معیشت کی صورت حال پچھلے کچھ عرصے سے بہتر رُخ اختیار کررہی ہے۔ ملکی ترقی اور خوش حالی کی درست راہ کا انتخاب کرلیا گیا ہے، بس اس پر تندہی سے چلنے کی ضرورت ہے۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اُترے
وہ فصل گُل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو