عدالت عظمیٰ کا حکومت اور پی ٹی آئی کو الیکشن تاریخ پر مشاورت کا مشورہ
اسلام آباد: عدالت عظمیٰ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت میں حکومت اور پی ٹی آئی کو مشاورت سے الیکشن کی ایک تاریخ دینے کا مشورہ دے دیا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نظام کو آئین کے تحت مفلوج کرنے کی اجازت نہیں، انتخابات کروانا لازم ہے۔
عدالت عظمیٰ کا 5 رکنی بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر پر ازخود نوٹس کی سماعت کررہا ہے۔ بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلا سوال تو یہ ہے کہ تاریخ دے گا کون؟ الیکشن کمیشن کی تاریخ آنے پر ہی باقی بات ہوگی۔ اگر قانون میں تاریخ دینے کا معاملہ واضح کردیا جاتا تو آج یہاں نہ کھڑے ہوتے۔
چیف جسٹس نے عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ 90 روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے۔ اٹارنی جنرل سے کہیں گے، آئینی نکات پر معاونت کریں۔ صدر کے صوابدیدی اور ایڈوائس پر استعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے۔
عدالت عظمیٰ کے جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے ساتھ ہی 90 روز کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نگراں وزیراعلیٰ الیکشن کی تاریخ دینے کی ایڈوائس گورنر کو دے سکتا ہے؟ کیا گورنر نگراں حکومت کی ایڈوائس مسترد کرسکتا ہے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدرعابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگراں سیٹ اپ کا اعلان ایک ساتھ ہوتا ہے۔ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کا ہے نگراں وزیراعلیٰ کا نہیں۔
عابد زبیری نے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے، انتخابات 90 روز میں ہی ہونے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا عدالتی حکم میں سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں۔ عابد زبیری نے جواب دیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کا وکیل ہوں کسی سیاسی جماعت کا نہیں۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے، وہ عدالتی حکم نامہ نہیں ہوتا جب ججز دستخط کردیں تو وہ حکم نامہ بنتا ہے۔
عابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگراں سیٹ اپ کا اعلان ایک ساتھ ہوتا ہے۔ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کا ہے، نگراں وزیراعلیٰ کا نہیں۔ اتنے دنوں سے اعلان نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں حکومت آئینی ذمے داری پوری نہیں کررہی؟ 90 روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے۔ اٹارنی جنرل سے کہیں گے آئینی نکات پر معاونت کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ گورنر جب بھی تاریخ دے گا 52 دنوں کا مارجن رکھا جائے گا۔
عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ صدر مملکت نے مشاورت کے لیے خط لکھے ہیں جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ صدر مملکت کس قانون کے تحت چٹھیاں لکھ رہے ہیں۔ آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں۔ نگراں حکومت بھی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے۔
جسٹس جمال نے ریمارکس میں کہا کہ صدر کے اختیارات براہ راست آئین نے نہیں بتائے۔ آئین میں اختیارات نہیں تو پھر قانون کے تحت اقدام ہوگا۔ اگر مان لیا قانون صدر مملکت کو اجازت دیتا ہے، پھر صدر ایڈوائس کا پابند ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے فریق کو سن کر فیصلہ کریں گے، صدر کو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ گورنر تاریخ نہیں دے رہا، صدر بھی ایڈوائس کا پابند ہے تو الیکشن کیسے ہوگا؟ کیا وزیراعظم ایڈوائس نہ دے تو صدر الیکشن ایکٹ کے تحت اختیار استعمال نہیں کرسکتا۔ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں صدر کو اختیار تفویض کیا ہے۔
عابد زبیری نے کہا کہ تفویض کردہ اختیارات استعمال کرنے کےلیے ایڈوائس کی ضرورت نہیں۔ الیکشن ہر صورت میں 90 روز میں ہونا ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔ گورنر اسمبلی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دے تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا۔ الیکشن کو 90 روز سے آگے نہیں لیکر جانا چاہیے۔
جسٹس منیب اخترنے استفسار کیا کہ کیا انتخابی مہم کا دورانیہ کم نہیں کیا جاسکتا جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ انتخابی مہم کا دورانیہ دو ہفتے تک کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس منیب نے کہا کہ آئین پر عمل کرنا زیادہ ضروری ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا، اگر انتخابات 90 دن میں ہی ہونا لازمی ہیں تو 1988 کا الیکشن مشکوک ہوگا؟ سال 2018 کا الیکشن بھی مقررہ مدت کے بعد ہوا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلا سوال تو یہ ہے کہ تاریخ دے گا کون؟ الیکشن کمیشن کی تاریخ آنے پر ہی باقی بات ہوگی۔ اگر قانون میں تاریخ دینے کا معاملہ واضح کردیا جاتا تو آج یہاں نہ کھڑے ہوتے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انتخابات پر متحرک ہونا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔ الیکشن کمیشن کا کام تھا مکمل تیاری کے ساتھ دوبارہ گورنرز سے رجوع کرتا۔ گورنر خیبرپختونخوا کے مطابق دیگر اداروں سے رجوع کرکے تاریخ کا تعین کیا جائے۔ کیا گورنر کے پی سے تاریخ کے لیے بات ہوئی ہے؟
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن نے گورنر سے ملاقات کی۔ گورنر کے پی کو یاد دہانی کا خط بھی لکھا تھا۔ گورنر کے پی نے مشاورت کے لیے تاریخ نہیں دی اور دیگر اداروں سے رجوع کرنے کو کہا۔
وکیل گورنر کے پی نے کہا کہ گورنر نے اسمبلی وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر تحلیل کی۔ گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ دینے کا مجاز ہے۔ الیکشن کمیشن نے 3 فروری کو گورنر کو صوبائی حکومت سے رجوع کا کہا۔ خط میں الیکشن کمیشن نے اپنی مشکلات کا بھی ذکر کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نظام کو آئین کے تحت مفلوج کرنے کی اجازت نہیں دی۔ انتخابات کروانا لازم ہے۔ اولین ترجیح آئین کے تحت چلنا ہے۔ الیکشن کی تاریخ کے بعد رکاوٹیں دُور کی جاسکتی ہیں۔ اگر کوئی بڑا مسئلہ ہو تو آپ عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی بھی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا، عدالت کے علاوہ کسی کو انتخابی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں، ٹھوس وجوہ کا جائزہ لے کر ہی عدالت حکم دے سکتی ہے، آرٹیکل 254 وقت میں تاخیر پر پردہ ڈالتا ہے، مگر لائسنس نہیں دیتا کہ الیکشن میں 90 دن سے تاخیر ہو، الیکشن بروقت نہ ہوئے تو استحکام نہیں آئے گا، حکومت کی نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہے، آج صرف تاریخ طے کرنے کا معاملہ دیکھنا ہے، اگر نوے روز سے تاخیر والی تاریخ آئی تو کوئی چیلنج کردے گا۔
عدالت نے حکومت اور پی ٹی آئی کو مشاورت سے ایک تاریخ دینے کا مشورہ دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم فیصلہ کربھی دیں تو مقدمہ بازی چلتی رہے گی جو عوام اور سیاسی جماعتوں کے لیے مہنگی ہوگی۔
عدالت عظمیٰ نے سیاسی جماعتوں کو اپنی قیادت سے ہدایت لینے کا وقت دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی قائدین سے مشورہ کرکے الیکشن کی متوقع تاریخ سے آگاہ کریں۔
فاروق ایچ ناٸیک نے کل تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن سے مشاورت کرنی ہے، تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ آج مقدمہ نمٹانا چاہتے ہیں، عدالت کا سارا کام اس مقدمے کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔