نیکی کر فیس بک پر ڈال۔۔۔

محمد راحیل وارثی

زمانہ بدل گیا ہے، جدید ہوگیا ہے، اس لیے اب اردو کی ضرب الامثال میں بھی جدت آجانی چاہیے، آخر کب تک ہم پرانی مثالوں پر تکیہ کرتے رہیں گے۔ اس لیے اس تحریر میں پُرانی ضرب الامثال کو جدت سے آشنا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اگر کسی کی طبع نازک پر گراں گزرے تو اس کے لیے پیشگی معذرت۔۔۔ نیکی کر دریا میں ڈال کی مثال کو یوں عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے نیکی کر فیس بُک پر ڈال، یا انسٹاگرام پر ڈال یا ٹوئٹر و ٹک ٹاک پر ڈال۔۔۔ اس پر آج ہر کوئی عمل پیرا بھی ہے اور سیلاب زدگان کی امداد کرتے وقت جدید ضرب المثل کی عملی تصویر بنا دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ دینی تعلیم کا تو مفہوم یہ ہے کہ ایک ہاتھ سے نیکی کرو تو دوسرے کو خبر نہ ہو۔۔۔

خیر ہم ضرب الامثال کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے عظیم مشن پر گامزن ہیں، اسی تک محدود رہا جائے تو زیادہ بہتر ہے، ورنہ زبان کھولیں گے تو بہت سوں کو شکایات ہوجائیں گی۔ معروف ضرب المثل سانچ کو آنچ نہیں، یعنی سچ کو نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا بھی اب وقت کے ساتھ بدل دینے کی ضرورت ہے۔ اسے یوں کردینا چاہیے جھوٹ کو آنچ نہیں، کیونکہ موجودہ دور میں سچ کی قدر کہیں گم سی ہوگئی اور جھوٹ کا بول بالا ہے، سچ بولنے والوں اور حق پر ڈٹے ہوئوں کا مقدر رسوائی اور بدنامی بن گئی ہیں۔ ملکی سیاست دانوں کے قول و فعل، طرز عمل، بیانات گویا اُن کی ایک ایک حرکت اس جدید مثال جھوٹ کو آنچ نہیں کی عملی تصویر نظر آتی ہے۔
قدیم کہاوت جتنی چادر دیکھو اُتنے پیر پھیلاؤ بھی عصر حاضر کے مطابق تبدیلی کی متقاضی ہے۔ کیوں کہ اس پرانی کہاوت پر دور جدید میں خال خال لوگ بھی عمل نہیں کرتے۔ اس لیے اسے یوں بدل دینا مناسب رہے گا کہ چادر دیکھے بغیر جتنے مرضی پیر پھیلائو۔ وہ الگ بات ہے کہ اس کے ثمرات بڑی تعداد میں لوگ بھگتتے بھی دکھائی دیتے ہیں، پھر بھی نصیحت نہیں پکڑتے۔

پرانی کہاوت آ بیل مجھے مار ہے، اسے آ موبائل مجھے مار سے بدل دیتے ہیں، کیوں کہ یہ آج کے دور میں حرف بہ حرف صادق آتی ہے، ہمارے ہاں بڑا ہو یا چھوٹا یعنی بزرگ ہو کہ جوان یا بچہ، سب ہی موبائل کے دیوانے اور دوست بنے ہوئے ہیں، وہ اس جدید دور کے آلے کو بے دردی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں، دن و رات کی کوئی قید نہیں ہوتی، سوتے، جاگتے، اُٹھتے، بیٹھتے غرض ہمہ وقت وہ اس سے کھیل رہے ہوتے اور اپنی صحت کو برباد کررہے ہوتے ہیں۔ اس سے نکلنے والی خطرناک شعاعیں اُن کو طرح طرح کے امراض سے دوچار کرتی ہیں، اس کی اُنہیں چنداں پروا نہیں ہوتی۔
پُرانی کہاوت تھی باادب بانصیب، بے ادب بدنصیب۔۔۔ اب اسے بے ادب خوش نصیب اور باادب بدنصیب سے تبدیل کرلیا جائے تو زیادہ مناسب رہے گا، کیونکہ عصر حاضر میں باادب شخص ہر جگہ بُری طرح پستا اور رُلتا رہتا ہے جب کہ بے ادب لوگ ہر جگہ راج کرتے اور پسند کیے جاتے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو اپنے معاشرے پر نگاہ دوڑالیں، لگ پتا جائے گا۔
کہاوت ہے کہ حلق سے نکلی خلق میں پہنچی۔۔۔ یعنی جو بات منہ سے نکل جائے، وہ فوری طور پر چاروں طرف پھیل جاتی ہے، یہ کافی اولڈ فیشن ہوگئی ہے، اس لیے جدید دور کے مطابق یہ بھی تبدیلی کی متقاضی ہے، لہٰذا اس کی متبادل موزوں ترین کہاوت ہوگی موبائل سے نکلی سوشل میڈیا تک پہنچی۔۔۔ یہاں موبائل سے نکلنے والی چیز سوشل میڈیا کی زینت بنتی اور اگر وائرل ہوجائے تو بنا کچھ کیے فرد کو راتوں رات سُپراسٹار بنادیتی ہے۔ اس حوالے سے کئی مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔
اردو اپنے اندر بے پناہ وسعت رکھتی ہے اور اس میں بیش بہا کہاوتیں، ضرب الامثال اور محاورے موجود ہیں۔ اس مختصر سی تحریر میں سب میں تو ٹیمپرنگ ناممکن ہے، لہٰذا اپنی سعی لاحاصل کو بس یہیں تک محدود رکھتے ہوئے وداع لیتے ہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔