اللہ سے محبت ۔۔۔
تحریر: کائنات شبیر
آج بھی معمول کے مطابق میں جلدی انسٹی ٹیوٹ پہنچ گئی تھی۔ آج مس آمنہ نے سورۃ مریم کا آغاز کیا تھا اور ہمیشہ کی طرح ایسا بہترین پڑھایا کہ ان کا پڑھایا ہر لفظ جیسے دل پر نقش ہوگیا، لیکن آج جاتے جاتے مس آمنہ نے ایک سوال ہمارے لیے چھوڑا کہ کل آپ لوگ بتائيں گے کہ "آپ سب کو اللہ تعالی سے کتنی محبت ہے؟”
میری نظر سامنے پڑے چائے کے کپ سے اڑتی ہوئی بھاپ پر تھی، لیکن میری سوچ کہیں دُور تک سفر کررہی تھی۔ آج انسٹی ٹیوٹ سے واپسی پر میں پورے راستے یہی سوچتی رہی، میرا ذہن اسی سوال میں الجھا رہا کہ آخر مس آمنہ نے اتنا آسان سوال کیوں دیا کہ آپ سب کو اللہ تعالی سے کتنی محبت ہے؟
"ظاہر سی بات ہے مجھے اللہ تعالی سے بہت محبت ہے، یقیناً سب ہی کو ہے اور ہونی بھی چاہیے۔” ایک تو پتا نہیں کیوں میرے دماغ سے یہ سوال نکل نہیں رہا تھا اور میں کیوں اس بارے میں اتنا سوچ رہی ہوں۔ خیر اب مجھے کل کا انتظار تھا کیونکہ کل مس آمنہ اس حوالے سے ضرور کچھ نہ کچھ بتائیں گی۔
صبح حسب عادت میری آنکھ جلدی کھل گئی۔ نماز اور تلاوت قرآن پاک سے فارغ ہوکر انسٹی ٹیوٹ جانے کی تیاری کرنے لگی، مگر ذہن میں پھر وہی سوال آگیا۔
اُف! پتا نہیں میں کیوں اس سوال کے بارے میں اتنا سوچ رہی ہوں۔۔
ہمیشہ کی طرح کلاس میں پہنچ کر سب سے آگے والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ آہستہ آہستہ تمام لڑکیاں آنے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری کلاس بھر گئی اور سب اپنی باتوں میں مشغول ہوگئیں، لیکن میری نظر گھڑی پر ٹکی ہوئی تھی کہ مس آکر کیا جواب دیں گی۔ ٹھیک آٹھ بجے مس آمنہ آئیں۔ ہمیشہ کی طرح مس آمنہ نے مسکراتے ہوئے باآواز بلند سلام کیا، کلاس میں بالکل خاموشی چھا گئی، پھر دعائیں پڑھیں اور کل والا سوال دہرایا، جی! تو بتائیں کہ آپ سب کو اللہ تعالیٰ سے کتنی محبت ہے؟
ایک ایک کر کے تمام لڑکیوں نے جواب دیا اور پھر جب میری باری آئی تو میں نے بھی بتادیا کہ مس مجھے اللہ تعالیٰ سے بہت محبت ہے، کیونکہ وہ ہمارے خالق اور مالک ہیں۔
مس آمنہ نے حسب عادت تمام لڑکیوں کو سراہا اور اگلا سوال پوچھا کہ آپ لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت میں کیا کرسکتی ہیں؟
یہ سوال سن کر کلاس میں خاموشی چھاگئی۔ اس خاموشی کو مس آمنہ کی آواز نے توڑا اور پھر باقاعدہ لیکچر کا آغاز کیا۔
آج میں آپ کو جس شخصیت کے بارے میں بتاؤں گی وہ ایک عظیم الشان شخصیت ہے۔ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حنیف تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں خلیل اللہ کا لقب دیا اور یہی نہیں بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام انبیاء مرسلین میں ایک اعلیٰ اور افضل مقام عطا کیا۔ اس عظیم الشان شخصیت کا نام ہے "حضرت ابراہیم علیہ السلام”۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تعلق ایک بت پرست قوم سے تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایمان کی بھرپور دولت سے نوازا تھا، لہٰذا انہیں بتوں کو پوجنا بالکل پسند نہیں تھا۔ وہ اپنے باپ اور اپنی قوم کو بار بار منع کرتے تھے کہ آپ ایسا نہ کریں یہ بت تو خود آپ کے محتاج ہیں، انہیں تو آپ لوگوں نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے تو یہ آپ کے خدا کیسے ہوسکتے ہیں؟
"خدا تو وہ ہے جسے کسی نے نہیں بنایا، بلکہ اُس نے پورے جہان کو بنایا ہے اور وہ خدا صرف اللہ ہے وہ اکیلا ہے وہ کسی کا محتاج نہیں، وہی تو ہے جس نے یہ زمین و آسمان بنائے ہیں، جِس نے ہمیں بنایا ہے۔”
لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ان باتوں کا بھی ان لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے زیادہ مداخلت کی تو اس بت پرست قوم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا، لیکن میرے خدا کی قدرت دیکھیے! کہ اس آگ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک بال تک نہ جلایا بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بالکل صحیح سلامت اس آگ سے باہر آگئے، مگر افسوس اس قوم کو یہ معجزہ دیکھ کر بھی عقل نہ آئی۔
مس آمنہ نے نظر دوڑا کر کلاس کی طرف دیکھا تو سب بڑی خاموشی سے ان کی طرف متوجہ تھیں، مس نے دوبارہ اپنی بات کو وہیں سے شروع کیا۔
پیاری بچیو! جس طرح آپ سب کو اپنے والدین سے بہت محبت ہے، اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی اپنے والد سے بہت محبت تھی۔ (بعض علما کے مطابق آذر حضرت ابراھیم کے والد نہیں چچا تھے۔ کیوں کہ قرآن کریم میں لفظ”اب” آیا ہے جس کا اطلاق چچا پر بھی ہوتا ہے۔ چچا کو باپ کہنا عربی محاورات میں عام بات ہے۔ خیر دونوں طرح کی روایات اہل سنّت میں موجود ہیں۔)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بہت کوشش کی، اُن کے والد اس غلط دین کو چھوڑ دیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کو بہت سمجھایا تھا کہ بابا یہ غلط ہے، آپ یہ سب چھوڑ دیں، لیکن ان کے بابا نے ایک نہ سنی بلکہ آپ علیہ السلام کو دھمکی دی کہ اگر تم نے یہ سب نہیں چھوڑنا، تو تم میرے گھر سے نکل جاؤ اور یہاں سے کہیں دُور چلے جاؤ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے والد کا یہ رویہ دیکھ کر بہت دُکھ ہوا، لیکن انہوں نے ہمیشہ کی طرح سب کی محبت پر صرف "اللہ تعالیٰ” کی محبت کو فوقیت دی اور پھر اپنے والد کا گھر چھوڑ کر کہیں دُور نکل پڑے۔
پھر آگے کی زندگی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق گزاری، جہاں اللہ تعالیٰ حکم دیتے، وہاں چلے جاتے، حق بات کہتے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے۔
اللہ تعالیٰ انسان کی قربانیوں کو کبھی رائیگاں نہیں جانے دیتے، بلکہ اس کا بہترین پھل دیتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک مشرک باپ کو چھوڑا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نبیوں والا خاندان عطا کردیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت اسحاق علیہ السلام جیسے بیٹوں سے نوازا، حضرت یعقوب علیہ السلام جیسے پوتے کی بشارت دی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نیک، فرماں بردار اور صالح اعمال کرنے والی اولاد عطا کی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں خود فرماتے ہیں:
"پھر جب جدا ہوا اُن سے جن کو وہ پوجتے تھے اللّٰہ کے سوا، بخشا ہم نے اسحاق اور یعقوب، اور دونوں کو نبی کیا۔” (سورہ مریم- 49)
ایک مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں بیٹے کو قربان ہوتے ہوئے دیکھا تو اس کا ارادہ فرمالیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ نبیوں کے خواب عام خواب نہیں ہوتے ہیں۔ اور جب اس خواب کا ذکر بیٹے سے کیا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بھی آگے سے کہا بابا جان آپ مجھے اللہ کی راہ میں قربان کردیں، مگر جو اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے صحیح سلامت نکال سکتا ہے تو وہ بیٹے کو قربان ہونے کیسے دیتا! جب حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے لگے تو اللہ کی شان کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل کی جگہ ایک دنبہ نازل فرمادیا، کیونکہ مقصد حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی نہیں تھا بلکہ یہ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امتحان تھا جس میں وہ سرخرو ہوچکے تھے۔
مس آمنہ نے رک کر سب لڑکیوں کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا اور کہا کہ تو اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم سب کا اسماعیل کیا ہے؟ جسے ہم بغیر سوچے سمجھے اللہ کی راہ میں قربان کرسکتے ہیں؟ مس آمنہ نے سب لڑکیوں سے سوال کیا مگر کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر مس نے اس سوال کا جواب خود دینا شروع کیا۔
ہم سب کا کوئی نہ کوئی اسماعیل ضرور ہوتا ہے، لیکن یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم سب کا اسماعیل کیا ہے؟ ہم سب کا اسماعیل ہماری "نفسانی خواہشات” ہیں، جِس نے ہمیں ہمارے رب سے دُور کردیا ہے، ہم صبح و شام اپنے نفس کی خواہشات، اپنے خوابوں کی تکمیل کی تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں، لیکن اِن سب میں ہم اللہ کو بُھول بیٹھے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ اِن نفسانی خواہشات کے پورے ہونے کے بعد بھی ہمارے دل کو سکون نہیں مل رہا، ہم بے چین رہتے ہیں۔ آخر وجہ کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اُس کے خواب، ارمان یا خواہشات کو پورا کرنے سے کبھی روکا نہیں لیکن جب ان خواہشات یا ارمان میں اللّٰہ کی رضا شامل نہ ہو تو انسان بے چین رہتا ہے۔ ہم اکثر یہ خیال تو کرتے ہیں کہ ہم اللہ کی رضا کے لیے کوئی کام کریں، لیکن ہماری محدود نظر اُس کے انجام تک رہتی ہے، اور پھر ہمیں یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ کہیں ایسا کرنے سے ہم کچھ کھو نہ دیں جب کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بغیر سوچے سمجھے اپنے بیٹے کو قربان کرنے کا فیصلہ کرلیا مگر پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کی جگہ ایک دنبہ نازل فرمادیا، ٹھیک اُسی طرح ہم بھی اگر اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز ترک کردیں گے یا اختیار کرلیں گے تو اللہ ہمیں اس كا بہترین اجر دے گا۔
اور اسی جب طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی میں اللہ تعالیٰ کے لیے قربانیاں دیں، ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو فوقیت دی، ہمیشہ اللہ کے دین کو سربلند کیا تو اللّٰہ تعالیٰ نے بھی انہیں اس کا بہترین پھل دیا۔ آج بھی دنیا بھر کے تمام مسلمان عیدالاضحیٰ کے موقع پر سنت ابراہیمی کو پورا کرتے ہیں، بیت اللّٰہ کا حج ادا کرنا بھی سنت ابراہیمی کی یاد دلاتا ہے، درود ابراہیمی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر آتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ قرآن پاک میں بہت سی جگہ پر، بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بار بار ذکر فرماتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں۔
"اور اس کتاب میں ابراہیم کا بھی تذکرہ کرو۔ بے شک وہ سچائی کے خوگر نبی تھے۔” (سورہ مریم- 41)
مس آمنہ لیکچر دے کر کلاس سے جا چکی تھیں، مگر کلاس کی تمام لڑکیاں آج کے لیکچر میں جیسے کھو گئی تھی، شاید آج ہر لڑکی اپنے آپ سے یہ سوال کررہی تھی کیا میں بھی اللہ تعالیٰ سے اتنی محبت کرسکتی ہوں؟ کیا میں بھی اللّٰہ تعالیٰ کے لیے اپنی پسندیدہ چیز كو قربان کرسکتی ہو؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح ایمان والا بنائے۔ (آمین)