بھارت: دلتوں اور مسلمانوں کی مشکلات
مسلمانوں کے رہنماؤں و جماعتوں کی جانب سے یہ بات کافی پہلے سے کہی جاتی رہی ہے کہ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کی گرفتاریوں کے سلسلے کی بنیاد درست نہیں۔ اس کے باوجود بڑی تعداد میں مسلمان دہشت گردی کے نام پر گرفتار ہیں۔ ان میں اکثر افراد قیاس پر مبنی اوامر کے باعث گرفتار ہوئے یا ان کے خلاف شواہد و ثبوتوں کی کمی پائی جاتی ہے۔ اس کے باوجود نہ اِن باتوں پر آج تک کان دھرا گیا اور نہ ہی گرفتاری میں کمی آئی۔ برخلاف اس کے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ بابری مسجد دھماکا کیس میں ملزم نصیر الدین احمد، جنہوں نے 23 سال جے پور جیل میں گزارے اور پھر انہیں بری کیا گیا، محمد عامر کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا، 14 سال جیل کاٹنے کے بعد ان کے اوپر لگے 19 میں سے 17 الزامات میں بے قصور قرار دیا گیا۔ عامر کو دہلی، روہتک، پانی پت اور غازی آباد کی جیلوں میں قریباً 10 ماہ کے فرق سے الگ الگ جگہوں پر 20 کم نقصان پہنچانے والے بم پلانٹ کرنے کے الزام میں رکھا گیا تھا۔
بی جے پی حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے حقوق اور تحفظ کے راگ الاپے جاتے رہے ہیں، تاہم حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس حوالے سے ناصرف مسلمان بلکہ بھارت کے عوام اور حکومت میں موجود افراد بھی حقیقت سے خوب اچھی طرح واقف ہیں، لیکن اگر معاملہ اقدامات کا ہو تو اس میں دیر کی جاتی ہے یا پھر اس طرح کے مسائل کو سرے سے نظرانداز کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے تعلق سے بی جے پی اور آر ایس ایس کی جو پالیسیاں اب تک سامنے آتی رہی ہیں، ان کی روشنی میں نہیں لگتا کہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ ہیں اور کوئی بڑا مثبت قدم اٹھاسکیں گے۔
کہا جارہا ہے کہ جس طرح کانگریس کے راہول گاندھی دلّتوں کے گھر کھانا کھانے پہنچ جاتے ہیں، ٹھیک اسی طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے بی جے پی کے رہنما بھی گرجابند کے گھر کھانا کھانے جاتے رہے ہیں۔ اور گرجابند کے گھر کھانا کھاتے ہوئے تصویر کو زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اس طرح کے مناظر تو عام طور پر اترپردیش میں اسمبلی یا پارلیمنٹری انتخابات سے قبل نظر آتے رہے ہیں۔ بی جے پی کو خود سے سوال کرنا چاہیے کہ وہ راہول گاندھی کے جس عمل کی نقالی میں مصروف ہیں، وہ کیونکر ہیں اور جس عمل کو کبھی ڈراما کہا جاتا تھا، وہ ڈراما آج کیوں کھیلا جارہا ہے؟ اور اس کا حاصل کیا ہے؟
سینئر صحافی روش کمار نے اپنے ایک مضمون ’دوش سمرتھ کا اور سمرس بھوجن دلت کے گھر؟‘ میں لکھا تھا، ویسے بی جے پی کی جانب سے میڈیا کو بھیجے گئے دعوت نامے میں گرجابند کو دلت بتایا گیا ہے جب کہ وہ حد درجہ پس ماندہ کے زمرے میں آتے ہیں۔ بنارس سے اُن کے ساتھی اجے سنگھ نے اُنہیں بتایا کہ بند اور راج بھر کئی برسوں سے اوبی سی میں شامل کیے جانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ بند ماہی گیری سے منسلک ہوتے ہیں اور خوراک کے لحاظ سے گوشت خور ہوتے ہیں۔ پترِکے ڈاٹ کام کے ڈاکٹر اجے کرشن چترویدی نے جب ریاستی صدر موریا جی سے پوچھا تو انہوں نے بھی قبول کیا کہ گرجابند دلت نہیں ہے۔ ہمارے ساتھی اجے سنگھ نے بتایا کہ گرجابند پہلے اَپنا دَل میں تھے۔ پھر سماج وادی پارٹی سے منسلک ہوگئے اور اب بی جے پی سے منسلک ہیں، لیکن بی جے پی کے لیڈر کہتے ہیں کہ وہ پارٹی کے حامی ہیں۔
دوسری طرف یہ حقیقت بھی خوب عیاں ہے کہ بھارت میں دلتوں کو مندروں میں پوجا پاٹ تک کی اجازت نہیں دی جاتی، ان کے مندر الگ ہوتے ہیں اور دوسری قوموں کے مندر الگ۔ بی جے پی اور کانگریس رہنماؤں سے یہ سوال بھی لازماً پوچھنا چاہیے کہ دلتوں کو ملک کے تمام مندروں میں داخلے کی اجازت کیسے اور کب تک ملے گی؟ ساتھ ہی اس تعلق سے پارٹی اور فرد واحد کا نظریہ کیا ہے؟ سیاسی لیڈران کا کسی دلت کے گھر کھانا کھالینا کوئی خاص بات نہیں، اس لیے کہ یہ سیاسی لوگ ہیں اور اِن کے ہر عمل کے پیچھے سیاست ہی کارفرما ہوتی ہے۔ برخلاف اس کے بھارت میں تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب کانگریس اور بی جے پی کے تمام لوگ ملک کے ہر گاؤں اور ہر گھر میں ایسی مثال پیش کریں۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے اور اپنے موقف کی وضاحت اور عملی کوشش نہیں کرتے، پھر جو کام آج تک نہ ہوسکا، مستقبل قریب میں اس کی امید کن بنیادوں پر کی جاسکتی ہے؟ یہ بات اس لیے بھی کہی جارہی ہے کہ ابھی کچھ دن پہلے ہی کا واقعہ ہے کہ ایک مندر کے پجاری اور ان کے ہمنوا، دلتوں کے داخلے پر پابندی لگاتے ہیں تو دوسری طرف دلتوں کو مندر میں داخل کرنے کے لیے ایک کوشش سامنے آتی ہے، لیکن ناصرف یہ کہ سماج کی جانب سے اس کا بائیکاٹ ہوتا ہے بلکہ مندر کے پجاری بھی عمل سے اختلاف رکھتے ہیں۔ واقعہ اتراکھنڈ سے راجیہ سبھا کے سابق رکن ترون وجے اور ان کی جانب سے کی گئی کوشش تھی، جس میں وہ چند دلتوں کو مندر میں عبادت کی غرض سے لے کر گئے لیکن دہرادون کے پاس چراتا میں ان پر حملہ ہوا اور ساتھ ہی جم کر پٹائی بھی ہوئی۔ وجہ صرف یہ تھی کہ ترون وجے دہرادون کے پوھر علاقے کے ایک قدیم شیومندر میں دلتوں کے ایک گروپ کو داخل کرنے کے لیے ساتھ گئے تھے۔ واقعے کے نتیجے میں اس فکر و عمل کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے جس کے قیام کی منظم و منصوبہ بند کوششیں جاری ہیں۔
گفتگو کے پس منظر میں جس طرح آج بھارت کے دلت اور مسلمان مسائل کا سامنا کررہے ہیں، ساتھ ہی معاشرہ جس طرح اُن کو اور اُن کے مسائل کو نظرانداز کرتا آیا ہے، واقعات کی روشنی میں اگر مسئلے کے حل کی بات کی جائے تو دو مراحل سامنے آتے ہیں۔ ایک: دلت اور مسلمانوں کو مشترکہ مسائل اور ان کے حل کے لیے متحد ہونا چاہیے۔ دوم: ہمت و حوصلہ اور منظم و منصوبہ بند سعی و جدوجہد کے ساتھ ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ ظلم سے نجات اگر درکار ہے تو خاموشی کے ذریعے یہ حاصل ہونے والی نہیں اور ویسے بھی خاموشی کو عموماً موت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ برخلاف اس کے وہ قانون کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے پُرامن طریقے کے ساتھ نظام عدل کے قیام کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں۔ کیونکہ اگر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی شناخت مٹ گئی یا مٹادی گئی تو چہار جانب ظلم کا غلبہ ہوگا۔ ان حالات میں بھارت میں امن قائم ہوسکتا ہے نہ ترقی کی منزلیں طے کی جاسکتی ہیں۔