پورے ملک میں سیلاب سے تباہی، بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا اندیشہ
اسلام آباد/ کراچی/ پشاور: پچھلے دنوں سے جاری طوفانی بارشوں اور سیلاب نے پاکستان بھر میں تباہی مچا رکھی ہے، بڑے پیمانے پر جانی نقصان کے اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں جب کہ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں، عوام کھلے مقامات پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جب کہ ہیضے اور پیٹ درد سمیت قسم قسم کی بیماریاں بھی جنم لینے لگی ہیں۔
نجی ٹی وی کے مطابق نوشہرہ کے علاقہ خویشگی پایاں میں دریائے کابل کے حفاظتی پشتے ٹوٹنے سے پانی قریبی گھروں میں داخل ہوگیا جس کے باعث خویشگی پایاں کے رہائشی گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے۔
دیامر میں وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری ہے، بارش اور سیلاب کا پانی سڑکوں اور کھیتوں میں جمع ہونے سے مکانات اور فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔
ڈپٹی کمشنر دیامر کا کہنا ہے کہ بارشوں کے باعث لینڈ سلائیڈنگ سے شاہراہ قراقرم متعدد مقامات پر بند کردی گئی ہے جب کہ تانگیر میں سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے امدادی سامان بھجوادیا ہے، امدادی سامان میں خیمے، ترپالیں اور خوراک کے پیکٹ شامل ہیں۔
تحصیل چیئرمین ضیاء الرحمان کمراٹ کا کہنا ہے کہ دیر بالا کے سیاحتی مقام میں بھی سیلابی صورت حال ہے اور کمراٹ کا ضلع کے دوسرے مقامات سے رابطہ کٹ گیا ہے، تمام رابطہ پل دریا برد ہوگئے ہیں۔
چیئرمین ضیاء الرحمان کا کہنا ہے کہ کمراٹ میں گزشتہ روز سے موسلا دھار بارش کے باعث مختلف علاقوں سے آئے 30 سے زائد سیاح پہاڑی علاقے میں پھنسے ہوئے ہیں۔
خاتون سیاح کا کہنا ہے کہ 30 افراد گزشتہ روز سے پہاڑی علاقے میں پھنسے ہوئے ہیں، رابطہ پل بہہ جانے سے دریا پار نہیں کرسکتے، ہمیں کچھ نہیں معلوم کہ ہمارا کیا بنے گا۔
بلوچستان میں سیلابی ریلوں سے مزید 6 ڈیم ٹوٹ گئے جب کہ صوبے میں مجموعی اموات کی تعداد 241 تک پہنچ گئی ہے۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق سیلاب سے زیارت، پشین اور مستونگ کے علاقوں میں کئی آبادیاں ڈوب گئی ہیں، واشک، خضدار اور بولان میں بجلی کے مین ٹاور گرنے سے علاقوں میں بجلی بند ہوگئی اور موبائل فون سروس کے ساتھ انٹرنیٹ سروس بھی بند رہی۔
صوبائی انتظامیہ کے مطابق سیلابی ریلوں نے بلوچستان میں ایک ہزار کلومیٹر پر مشتمل مختلف شاہراہوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت نے وفاقی حکومت سے سیلاب متاثرین کے لیے مدد کی اپیل کردی ہے۔
ترجمان کے پی حکومت بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے سندھ کے سیلاب زدگان کی مدد کی، خیبر پختونخوا حکومت کی بھی مدد کریں۔
سندھ کے مختلف شہروں میں 3 روز سے جاری بارش کا سلسلہ تو تھم گیالیکن ہر جگہ کئی کئی فٹ پانی جمع ہونے سے عوام کی مشکلات برقرار ہیں۔
لاڑکانہ میں پانی جمع ہونے کے باعث شہر کے مختلف علاقوں کی صورت حال ابتر ہے، بارش کا پانی سیشن کورٹ کی عمارت اور چانڈکا پروفیسر کالونی میں بھی موجود ہے، ڈی سی ہاؤس، سی ایم سی ٹیچنگ اسپتال اور چانڈکا میڈیکل کالج زیر آب آ گئے ہیں۔ جھڈو مکمل ڈوب چکا ہے۔ سندھ کے بیشتر علاقوں میں کئی دنوں سے بجلی بند ہے۔ لوگ کھلے آسمان تلے اپنے اہل خانہ اور مویشیوں کے ساتھ زیست گزارنے پر مجبور ہیں جب کہ سرکاری کیمپوں میں بھی امداد کے حوالے سے صورت حال ناگفتہ بہ دکھائی دیتی ہے۔ عوام امداد نہ ملنے پر احتجاج بھی کررہے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف آج ایک بار پھر سیلابی صورتح ال کے جائزے کے لیے سندھ کے ضلع سجاول پہنچ گئے ہیں، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی شہباز شریف کے ہمراہ ہیں۔