سندھ میں سیلاب، سیکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے
حیدرآباد/ میرپورخاص/ سکھر/ کوٹ غلام محمد: سندھ میں موسلا دھار بارشوں اور سیلاب نے بڑی آبادی کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ بیشتر علاقے مکمل ڈوب چکے ہیں۔ سیلاب کے باعث کوٹ غلام محمد ضلع کے سیکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ بے شمار گھر سیلاب سے تباہ ہوچکے ہیں۔ ہزاروں لوگ کھلے آسمان تلے مال مویشی اور اہل خانہ کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب ضلع عمرکوٹ میں کپاس اور مرچ کی تیار فصلیں بارش کے پانی کی نظر ہو گئیں،لاکھوں افراد نے کچے مکانات اور جھونپڑیاں گرنے کے باعث جان بچانے کیلئے شہروں اور تھر کے اونچے ٹیلوں کا رخ کرلیا ہے۔
متعدد مویشی سیلاب کے باعث مر چکے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ضلع میں 88 ہزار 8 سو 85 ایکڑ رقبے پر مرچ، کپاس، پیاز کی تیار فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ صرف اس ضلع پر ہی کیا موقوف سندھ بھر کی 90 فیصد فصلیں برباد ہوچکی ہیں۔
جھڈو نوے فیصد سیلاب کی زد میں آچکا ہے، پران ندی اوور فلو ہونے سے پانی جھڈو شہر کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، بیشتر شہریوں نے نقل مکانی شروع کردی ہے، کئی گھر بھی متاثر ہوئے ہیں، میرپورخاص میں قدرتی آبی گزرگاہوں پر قائم تجاوزات نے بڑی تباہی مچائی ہے۔ پورا ضلع جھیل میں تبدیل ہوچکا ہے۔ لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ دیہی علاقوں کے لوگ نقل مکانی کرکے محفوظ مقامات کی جانب جارہے ہیں۔ میہڑ، مٹیاری، بھٹ شاہ میں صورت حال سنگین ہے۔ میہڑ میں شدید بارش سے تین سو سال قدیم سنت تھانور داس مندر کی چھت اور دیوار زمیں بوس ہوگئی ہیں۔ سندھ کے سیلاب سے متاثرہ تمام علاقوں میں سیلاب زدگان بے یار و مددگار کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔
امدادی سامان محض کچھ لوگوں تک پہنچ سکا ہے۔ عوام کی جانب سے امدادی سامان نہ پہنچنے پر شدید احتجاج بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔ سیلاب سے متاثر لوگوں کے لیے اسکولوں، کالجوں میں کیمپس بھی قائم کیے گئے ہیں، جہاں لوگوں کی جانب سے سہولتوں کے فقدان کی شکایات سننے میں آرہی ہیں۔ دوسری جانب سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں مخیر افراد بھی خلق خدا کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ اُنہیں ناصرف خیمے بلکہ کھانا، ادویہ اور ضروری سامان فراہم کیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود بڑی تعداد میں بے یارومددگار عوام امداد کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔
علاوہ ازیں گزشتہ روز حیدرآباد میں سو ملی میٹر سے زائد بارش ریکارڈ کی گئی، جس نے پورے شہر کو ڈبو کر رکھ دیا۔
سندھ میں افواج پاکستان کی امدادی سرگرمیاں جاری ہیں اور وہ متاثرین کو محفوظ مقامات کی جانب منتقل کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
اندرون سندھ کے بیشتر حصوں میں بجلی کافی وقت سے منقطع ہے۔ پینے کے پانی کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ نظام زندگی مکمل طور پر مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔