عزیزم


جاڑے کی اس طویل رات میں نجانے کب سے جاگ رہا ہوں اور خاموشی نہ چاہتے ہوئے بھی رگ و جاں میں حلول کرتی چلی جا رہی ہے- تم جانتے ہو کہ یہ شب بہت خاص ہے کیونکہ اس کے بعد اجالے بڑھنے اور اندھیروں کا دورانیہ کم ہونا شروع ہو جائے گا، لیکن یہ طویل ترین رات کاٹنا بھی تو آسان نہیں ہے- دسمبر ویسے بھی اداس کر دینے والا ہوتا ہے اور میرے جیسے ناسٹیلجیائی مریضوں کو تو یہ مزید اداس کرنے پہ تلا ہوتا ہے- اندھیروں میں پرچھائیاں جب ابھرتی ہیں تو بے شمار گھڑیاں پیچھے کو دوڑنے لگتی ہیں اور انسان ہر بیتی گھڑی کو محسوس کرنے لگتا ہے- رات ویسے بھی راز ہوتی ہے اور اگر یہ جاڑے کی طویل ترین شب ہو تو پھر سوچو راز کتنے ہوں گے اور انہیں بے نقاب کرنے والوں کے حوصلے کیا ہوں گے؟ پروانوں نے کتنی مزاحمت کی ہو گی اور شمع نے کتنے پروانوں کو اپنے دیدار کی خاطر جھلس جانے پر مجبور کیا ہو گا؟ یہ وہی جانتے ہیں جنہوں نے نیند سے بغاوت کی ہے- پروانے چاہتے ہیں کہ طویل ترین شب نہ بیتے کہ شاید کسی لمحے محبوب کی اک نظر ان پر پڑ جائے؛ سو وہ دیر تک مزاحمت کرتے رہے اور پھر پھڑپھڑاتے ہوئے بلآخر جھلس کر محبوب کے قدموں میں آن گرے- شاید انہی پروانوں کی بدعا ہے کہ شمع کو ہر حال میں جلنا پڑتا ہے اور پھر ٹمٹماتے ٹمٹماتے سحر کی آمد پر وہ بھی بھسم ہو جاتی ہے-

شب یلدا بھی بیت جائے گی! اس نے بیتنا ہی تو تھا- لازوال بھلا یہاں کچھ ہے کیا؟ تم سوچتے ہو گے کہ یہ یلدا کیا ہے؟ یلدا سریانی لفظ ہے جس کے معنی ہیں پیدائش- کہنے والوں نے کہا ہے کہ یہ وہی رات ہے جس میں مسیح علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے- طویل ترین شب کے کسی پہر وہ بچہ اس جہان میں آیا ہو گا جو مسیحا بنا- کسی نے کہا تھا،
"بہ صاحب دولتی پیوند اگر نامی ھمی جویی کہ از یک چاکری عیسی چنان معروف شد یلدا”
یلدا مسیحی دنیا سے آیا اور فارس میں اپنے ڈیرے ڈال لیے- یوں شب یلدا ایک تہوار کے طور پر فارس اور دیگر علاقوں میں پھلا پھولا- کچھ اسے سخت منحوس سمجھنے لگے، جبکہ اکثر اسے ایک خوشخبری کے طور پر جانتے ہیں کہ اس طویل اندھیرے کے بعد اجالے بڑھ جائیں گے اور راتوں کی میعاد کم ہو جائے گی- اسی لیے کسی نے کہا تھا،
"The darkest hour of the night is just before the dawn”
شاید لکھنے والے نے بھی شب یلدا کے کسی طویل اور تاریک ترین پہر کا سامنا کیا ہو گا- تاریک ترین پہر ہو یا پھر تاریک اور طویل ترین رات، بیت جانا ان کا مقدر ہے- شب یلدا دراصل سال کی وہ طویل ترین رات ہے جس کے بعد دن بڑھنے اور راتیں سمٹنا شروع ہوتی ہیں- قدیم ایرانی تہذیب میں شب یلدا کو تاریکی پر روشنی کی فتح کا تہوار قرار دیا جاتا تھا اور پھر اسی فارس سے یہ رواج رومیوں نے بھی اپنا لیا، یوں رومی اسے جشن ساتورن کے نام سے منانے لگے- شب یلدا میں آج میں جو محسوس کر رہا ہوں وہ مکمل لفظوں میں اتارنا ممکن نہیں ہے مگر یہ سمجھ لو کہ رات راز ہو،رات بات بھی ہو اور پھر شب یلدا بھی ہو تو بے شمار کیفیات کا نزول ہوتا ہے،کئی ساعتیں ٹھہر جاتی ہیں اور کئی جذبات کا جنم ہوتا ہے-

میرے دوست! شب یلدا ہو، شب ہجراں یا شب وصل۔۔۔۔۔کل من علیھا فان! اندھیرے اپنے اندر بہت وسعت رکھتے ہیں- خیر و شر اپنے اپنے انداز میں کائنات کی وسعتوں میں حلول کرتے چلے جاتے ہیں- میں کبھی "ومن شر غاسق اذا وقب” کہیں "گرہوں پر پھنکار” اور کسی وقت "اعوذ برب الفلق” کی صدا تسبیح و منتر کی صورت اس کائنات عظیم میں پھیلتا ہوا محسوس کر رہا ہوں- انسان کی معراج کے یہی اندھیرے گواہ ہیں مگر ابلیسیت بھی ہمیشہ اندھیروں کا ہی فائدہ اٹھاتی ہے- شب یلدا طاری ہے،خیر و شر اپنی ازلی جنگ میں محو ہیں اور نیند کا طلسم بھی شب کے اندھیروں میں کسی سریلی بانسری کی مانند سنائی دے رہا ہے۔ ادھر ہی کہیں کچھ خواب بھی اپنی پٹاری کھولے نیند کی آمد کے منتظر ہیں- شب بھر یہی عجب سا میلہ سجے گا اور پھر سحر یقیناً ان سب پہ غالب آ جائے گی- نیند والوں کے لیے یہ شب یلدا کی طوالت بے حد سکون بخش ہے لیکن رازوں کو بے نقاب کرنے کی جستجو کرنے والوں کے لیے یہ نعمت سے کم نہیں ہے- اب شب یلدا کے طویل اندھیرے کو سحر اجالوں میں بدلنے کے قریب ہے اور عقل و بینائی رکھنے والے بے ساختہ کہہ اٹھیں گے، "الحمدللہ الذی اقالنا یومنا ھذا،ولم یھلکنا بذنوبنا-” اس سے پہلے کہ شمع بھسم ہو جائے،رات کا سحر ٹوٹ جائے،پرچھائیاں منتشر ہو جائیں اور ناسٹالجیائی کیفیات دم توڑ دیں مجھے مزید اس شب یعنی شب یلدا سے محو گفتگو رہنے دو- نیند سے بغاوت نے کیفیات کے کئی باب کھول دیے ہیں جنہیں بند کرنے پہ وقت لگے گا- بس اتنا جان لو کہ شب یلدا خزاں کے اختتام کا پیغام ہوا کرتی ہے-

تمہارا اپنا۔۔۔
عبداللہ

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔