لاپتا افراد کی ذمے داری وزیراعظم اور کابینہ پر آتی ہے: عدالت عالیہ
اسلام آباد: عدالت عالیہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ لاپتا افراد کی ذمے داری وزیراعظم اور کابینہ پر آتی ہے، اور کیوں نہ ریاست کے بجائے معاوضے کی رقم وزیراعظم اور کابینہ ارکان ادا کریں؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتا صحافی و بلاگر مدثر نارو کی بازیابی سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔ وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شیریں مزاری سے کہا کہ آپ کے اندر احساس ہے، لیکن ریاست میں احساس نظر نہیں آتا، لاپتا افراد کی فیملیز سڑکوں پر رُل رہی ہوتی ہیں، ریاست کی ذمے داری ہے کہ ہر شہری کے بنیادی حقوق کا خیال کرے، ریاست کا ری ایکشن اس کیس میں افسوس ناک ہے، ریاست ماں کی جیسی ہے، اس کو اسی طرح نظر آنا چاہیے، ماں کی طرح ان کو لے کر جائیں اس فیملی کو مطمئن کریں، اس کا بچہ بھی پیدا ہوا ہے، اس کی بیوی بھی دنیا چھوڑ گئی، ریاست کی ذمے داری ہے کہ بچے اور اس کے والدین کو مطمئن کرے، وزیراعظم اور وفاقی کابینہ اس متاثرہ فیملی کو سنیں اور مطمئن کریں۔
ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ میں مختلف اتھارٹیز سے رابطے میں ہوں ان کو کہا ہے وہ اس معاملے کو دیکھیں، جبری گمشدگی کے خلاف آمنہ جنجوعہ کے ساتھ مل کر وزیراعظم عمران خان احتجاج بھی کرتے رہے ہیں، مدثر نارو کی فیملی کے ساتھ ملنے میں وزیراعظم کو کوئی مسئلہ نہیں، فیملی کو ماہانہ بنیادوں پر معاوضہ دینے کو پروسس کررہے ہیں۔
وزیر انسانی حقوق نے کہا کہ بیان حلفی ابھی تک نہیں ملا، اس کے مطابق اخراجات کی ادائیگی کے لیے پراسس کریں گے، وزیراعظم ان کو ضرور سنیں گے، پہلے ہم چاہتے ہیں کہ ان کے لیے اخراجات کی ادائیگی کا بھی پراسس کرلیں، لاپتا شخص کے کمسن بچے اور دادی کی وزیراعظم سے ملاقات کرائی جائے گی، اس سے پہلے آئندہ ہفتے تک ان کو معاوضے کی رقم کی ادائیگی کا پراسس مکمل کرنے دیں، ہماری حکومت جبری گمشدگی کو سنگین جرم سمجھتی ہے، جمہوریت میں کسی کو لاپتا کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جاسکتی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیوں نا ایک قانون بنایا جائے کہ جو ذمے دار ہے اس سے معاوضہ لیا جائے، اگر کوئی 2002 میں لاپتا ہوا تو کیوں نا اُس وقت کے ذمے داروں کو جرمانے کیے جائیں، اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کو ذمے دار ٹھہراکر اسے ازالے کی رقم ادا کرنے کا کیوں نہ کہا جائے؟ کسی نہ کسی کو تو اس کا ذمے دار ٹھہرانا چاہیے، ہماری آدھی زندگی غیر جمہوری حکومتوں میں گزری اور یہ انہی کا کیا کرایا ہے، ابھی تو پولیس، منسٹری والے ہر ایک کو فری ہینڈ ملا ہوا ہے، اس میں صرف اسٹیٹ ایکٹر نہیں غیر ریاستی عناصر بھی آتے ہیں، تمام ایجنسیاں وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں، الزام درست ہو یا نہ ہو ذمے داری ریاست کی ہے کہ وہ متاثرہ فیملی کو مطمئن کرے، تین سال سے وہ دربدر پھر رہے ہیں، اس سلسلے کو اب رکنا چاہیے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزیراعظم کے پاس لے کر جائیں، کابینہ ارکان سے ملاقات کرائیں، آپ کوشش کریں کہ یہ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد مطمئن ہوکر واپس آئیں، لاپتا افراد کی ذمے داری تو وزیراعظم اور کابینہ ارکان پر آتی ہے، ریاست کے بجائے معاوضے کی رقم وزیراعظم اور کابینہ ارکان کیوں نہ ادا کریں؟ تاکہ یہ معاملہ ہی ہمیشہ کے لیے ختم ہوسکے۔
عدالت نے حکومت کو 13 دسمبر تک مدثر نارو کی فیملی کو مطمئن کرنے کا حکم دیا۔ ہائی کورٹ نے شیریں مزاری سے آئندہ سماعت پر جواب طلب کرتے ہوئے سماعت 13 دسمبر تک ملتوی کردی۔