بے جا امدادی تشہیر بھی ایک وائرس ہے
اس وقت دنیا کروناوائرس سے خوفزدہ ہے، اس وائرس سے اب تک ہزاروں اموات ہو چکی ہیں، لیکن ہمارے ملک پاکستان کو اس وقت فقط کرونا وائرس سے نہیں بلکہ قحط اور بھوکوائرس سے بھی لڑنا پڑرہا ہے۔ تیسرا ان ذخیرہ اندوزوں سے جنھوں نے پاکستانی عوام کی قوت مدافعت اور ہمت کو کمزور کر دیا ہے۔ میں ذکر کر رہا ہوں اُن ظالم لوگوں کا جنھوں نے وائرس کے ابتدائی دنوں میں تو ماکس کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچا دیا اور اس کے بعد اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بڑھا دیں جس کا نقصان صرف اور صرف نچلے طبقے کو ہوا۔ یہ وہ مظلو طبقہ ہے جس کے بارے میں پہلے کبھی کسی نے سوچا اور نہ اب کوئی سوچ رہا ہے۔
کسی نے سوچا کہ اُن پر کیا گزر رہی ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر کماتے ہیں اور کھاتے ہیں؟ وہ مزدور طبقہ جن کے لیے ہم ہر سال یومِ مزدور مناتے ہیں وہ مزدورآج فاقہ کشی کی وجہ سے حسرت و بیچارگی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
ملک کے لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ غریب عوام کی سانسوں کا بھی لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے، امداد کی منصفانہ تقسیم نہ ہوئی تو کرونا وائرس سے پہلے اس عوام کو فاقوں سے موت آجانی ہے،
وہ آنسو جو میں نے ایک سفید پوش کی آنکھوں میں دیکھے ہیں، وہ بوڑھی آنکھیں چیخ چیخ کر سُوال کر رہی تھیں کہ میرا قصور کیا ہے؟ بھوک، افلاس اور غریبی کیا یہی میرا واحد جرم ہے؟ کیا غربت اس دور میں ایک عیب بن چکا ہے؟ اگر کوئی مدد بھی کرتا ہے تو اس قدر تشہیر کرتا ہے کہ بھوک تو مٹ جاتی ہے پر اپنی غیرت کا جو جنازہ نکلتا ہے وہ کسی کو کیوں کر دکھائے دے گا۔
سوشل میڈیا پر امداد کی تصاویر لگانے والوں خدارا ان شعبدہ بازیوں سے باز آجائیں، کوئ سفید پوش کسطرح اپنی عزت نفس کا جنازہ اپنے کندھوں پہ لاد کر اپنی نفس کو مجروح کرکے کس طرح وہ امداد لیتا ہے اسکا احساس کس نے کیا؟
خدارا غریبوں کی آواز بنیں اور حکومت پاکستان سے التجا کریں کہ کوئی ان حالات سے نبرد آزما ہونے کا درست طریقہ کار وضع کرے ورنہ غربت ایسی چیز ہے جس کے آگے کوئی لاک ڈاوُن نہیں ٹہرتے۔