رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ابتدائی چالیس سال
تحریر: احسن لاکھانی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب شکم مادر میں تھے تب ان کے والد جناب عبداللہ بن عبدالمطلب کا انتقال ہوگیا۔ عرب میں یہ رواج تھا کہ نومولود بچوں کو صحراؤں میں رہنے والی عورتوں کے حوالے کیا جاتا اور بچے دو سال تک انہی کا دودھ پیتے۔ ان دنوں یہ بات مشہور تھی کہ اگر بچہ صحراؤں میں رہنے کا عادی ہوتا ہے تو بیمار نہیں ہوتا شہر میں پلنے والے بچے بیمار ہو کر مر جاتے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بی بی حلیمہ اپنے ساتھ صحرا لے گئیں اور دو سال تک اپنا دودھ پلایا اسی طرح وہ آپ علیہ اسلام کی رضائی ماں کہلائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ مدینہ سے واپس مکہ آرہی تھیں تو مقام اَبْواء پر بیمار ہوئیں اور وہیں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت آپ علیہ اسلام کی عمر 6 سال تھی۔ آپ علیہ اسلام اور سیدنا آمنا کی خادمہ ابن ایمن نے انہیں وہیں دفنایا۔
آپ علیہ اسلام کی کفالت پھر ان کے دادا جناب عبدالمطلب نے کی لیکن دو سال بعد وہ بھی انتقال کر گئے۔ یوں آٹھ سال کی عمر میں آپ علیہ اسلام کی کفالت اپنے چچا جناب ابو طالب کے ذمے آگئی۔ جناب ابو طالب، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت فرمایا کرتے تھے۔ دس یا بارہ سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں چڑھانا شروع کیں۔ کچھ مغربی مورخین نے یہاں ابو طالب پر یہ الزام لگایا کہ وہ آپ علیہ اسلام پر ظلم کرتے تھے اور ان سے کام کرواتے تھے۔ پر وہ مورخین عرب رواج سے ناواقف تھے، عرب میں بچپن سے ہی دودھ دوہنا اور بکریاں چڑھانے کا رواج تھا۔ جناب ابو طالب تجارت کی غرض سے شام جا رہے تھے اس وقت آپ علیہ اسلام کی عمر بارہ سال تھی۔ آپ علیہ اسلام نے ضد کی کہ مجھے بھی اپنے ہمراہ لے جائیں چنانچہ ابو طالب انہیں بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ وہاں کے ایک پادری نے آپ علیہ اسلام کو دیکھ کر کہا کہ یہ بچہ "سید المرسلین” یعنی نبیوں کا سردار ہے (اس روایت میں اختلاف ہے)۔ آپ علیہ اسلام سترہ یا اٹھارہ سال کی عمر میں ہی تجارت سے وابستہ ہوگئے۔ عرب مال داروں کو اپنا مال دوسرے ملکوں میں بیچنے کے لئے ایماندار لوگوں کی ضرورت پڑتی۔ اس طرح آپ علیہ اسلام تاجروں کا مال دوسرے ملک لا کر ایمانداری سے بیچ دیتے۔ بہت جلد مکہ میں آپ علیہ اسلام صادق و امین لقب سے مشہور ہوگئے۔
سیدنا خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک مالدار خاتون تھیں جب انہیں آپ علیہ اسلام کی ایمانداری کا علم ہوا تو انہوں نے بھی اپنا مال بیچنے کے لئے رسول اللہ علیہ اسلام کا انتخاب کیا۔ آپ علیہ اسلام جب مال بیچ کر آتے تو راستے میں خرچ ہونے والی ایک ایک پائی کا حساب دیتے اس بات سے سیدہ خدیجہ اس قدر متاثر ہوئیں کہ آپ علیہ اسلام کو نکاح کا پیغام بھیج دیا۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ ایک عورت خود اپنے نکاح کا پیغام بھیج رہی ہے۔ آج کے زمانے میں اسے معیوب سمجھا جاتا ہے حالاں کہ اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ لڑکیاں اپنی مرضی سے نکاح کریں۔ آپ علیہ اسلام کا نکاح جناب ابو طالب نے پڑھایا۔ نکاح کے وقت آپ علیہ اسلام کی عمر پچیس جب کہ سیدنا خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی۔ سیرت کی کتابوں میں آتا ہے چوں کہ آپ علیہ اسلام غریب تھے اور سیدہ خدیجہ امیر تو نکاح کے بعد سیدہ خدیجہ، آپ علیہ اسلام کی خوب دلجوئی کرتیں تاں کہ انہیں اس بات کا احساس نہ ہو کہ وہ غریب ہیں۔
تیس سے پینتیس سال کی عمر کے بعد آپ علیہ اسلام اکثر مکہ کے قریب پہاڑ جبل نور پر واقعہ غار حرا میں جا کر مراقبہ کرتے، سوچ و بیچار کرتے۔ یہاں یہ امر دلچسپ ہے کہ کتابوں میں آپ علیہ اسلام کی پینتیس سے لے کر چالیس سال کی زندگی کے احوال نہیں ملتے۔ ماہرین کہتے ہیں یہی پانچ سال آپ کی زندگی کے بہت دلچسپ ہیں کیونکہ انہی پانچ سالوں میں آپ کی طبیعت میں انقلاب آیا اور یہی پانچ سال نبوت عطا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ بنے یا یہ کہہ لیں ان ہی پانچ سالوں میں آپ علیہ اسلام کو نبوت کے لئے تیار کیا گیا۔ چالیس سال کی عمر میں جب آپ غار حرا میں تھے تو انہیں آواز آئی اقرا، پڑھ اپنے رب کے نام سے، آپ علیہ اسلام نے فرمایا مجھے پڑھنا نہیں آتا، پھر آواز آئی اقرا، آپ نے پھر وہی بات دہرائی، تیسری بار جبرائیل نے آپ علیہ اسلام کو بہت زور کے ساتھ اپنے سینے سے لگا کر چھوڑا اور کہا پڑھیے۔ پھر آپ علیہ اسلام نے وہ اقرا والی پوری آیت پڑھی۔