کریم کیک، زیبرا کراسنگ اور اجتماعی حمام کا بانی شہر
بیس ہزار نفوس پر مشتمل یہ شہر بہت خوبصورت تھا۔ دو دو منزلہ مکانات، ان کے پیچھے چھوٹے چھوٹے باغات، باغات میں بنے فوارے، کشادہ سڑکیں، میٹھے پانی کے تالاب، کلب، بیکریاں، واٹر سپلائی کی اسکیم، لائبریری، کمیونٹی سینٹر، اسپتال اور گھوڑے باندھنے کے جدید اصطبل نے اس شہر کو جنت بنا دیا تھا۔
اس شہر کا نام پومپئی تھا جو سلطنت روم کا ایک قدیم شہر تھا۔ یہ شہر موجودہ ملک اٹلی کے علاقے کمپانیہ میں ناپولی (نیپلز) کے نزدیک واقع تھا۔ یہ شہر 7ویں صدی قبل مسیح کے دوران آباد ہوا تھا۔ مختلف ادوار میں مختلف قوموں کے زیرنگیں رہنے کے بعد رومن ایمپائر کے تسلط میں آیا۔ پھر اس شہر نے ترقی کی ایسی منازل طے کیں کہ یہ اس وقت دنیا کے عظیم ترین شہروں میں شمار ہونے لگا تھا۔ یہ دنیا کا پہلا شہر تھا جس میں زبیرا کراسنگ شروع ہوئی تھی، یہیں کریم کیک ایجاد ہوا تھا اور یہیں سے اجتماعی غسل خانوں یا حمام کے تصور نے جنم لیا تھا۔
یہ شہر سلطنت روم کے بڑے تجارتی شہروں میں سے ایک تھا لیکن دولت کی فراوانی تھی اور خرچے آمدن کی نسبت بہت کم تھے۔ بے فکری تھی لوگوں کے پاس وقت گزارنے کا ایک ہی ذریعہ تھا اور وہ تھا جنسی راحت، جس نے لذتوں کا بازار کھول دیا تھا۔ کسی کو کوئی فکر نہیں تھی کہ کون کس کے ساتھ جنسی لذت حاصل کر رہا ہے۔ جسم ایک کاروبار بن گیا، اجتماعی غسل خانے یا اجتماعی حمام بے حیائی کے مراکز بننے لگے۔ چند دہائیوں بعد یہ بے حیائی اس شہر کا عام مزاج بن گئی۔ اب اس شہر کی پہچان زرعی، تجارتی یا صنعتی شہر کی نہ رہی، بلکہ اب یہ ایک بڑے آزاد معاشرے کا شہر بن گیا۔ کسی پابندی، کسی روک ٹوک ، ہر قسم کے قانونی و سماجی بندھنوں سے آزاد، کھلے عام جنسی تعلقات اس شہر کی خاص پہچان بن گئے۔ سارے سلطنت روم سے رئیس، امرا، فوجی جرنیل، سیاست دان، غلام، یہاں آنے لگے، امیر عورتیں طاقتور مردوں کو کرائے پر راتوں کو طلب کرتیں، مرد ایک ہی وقت میں کئی عورتوں سے کھیلتے، عورتیں آپس میں رنگین محفلیں سجانے لگیں، مرد دوسرے مردوں سے محبت کرنے لگے، کچھ لوگوں کو بھیڑ بکریوں، کتوں اور دیگر جانوروں سے لذت کا مزہ آنے لگا۔ جسم فروشی اس شہر کا بنیادی پیشہ اور معیشت کا اہم ستون بن چکا تھا۔ صرف عورتیں ہی نہیں بلکہ کئی تندرست مرد بھی اس کام میں پیش پیش تھے۔ غلاموں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کی ایک بڑی تعداد اس پیشے سے وابستہ تھی۔عوام کے ساتھ ساتھ شہر کی اشرافیہ یعنی اس کے امراء، افسران اور اکثر وزرا یا تو اپنے اپنے قحبہ خانے کے مالک تھے یا پھر جسم فروش غلاموں کی تجارت میں ملوث۔ جو جسم فروشی اور گناہوں کی اس لعنت میں زیادہ مبتلا ہوتا پومپئی شہر میں وہ اتنی ہی زیادہ اہمیت کا حق دار تھا۔ بڑے بڑے رومن افسروں کی بیگمات آزادانہ تعلقات کی اس لعنت میں پڑی ہوئی تھیں۔ اس پر شرم تو درکنار اُلٹا فخر کیا جاتا۔
سترہویں صدی کی ایک ایسی ہی عام سی رات تھی جس میں ایک ہی گھر میں ایک کمرے میں ایک فوجی جرنیل تین اور مردوںس کے ساتھ ننگ بدن شراب کی بوتلوں سے نہا رہے تھے اور ایک دوسرے کو چاٹ رہے تھے، اسی گھر کے دوسرے کمرے میں جرنیل کی بیوی ایک حبشی مرد کے ساتھ جوانی کی آگ سلگا کر حبشی مرد کو تھکا رہی تھی۔ شہر بھر کے ہر گھر سے قہقہوں کے گھنگرو ناچ رہے تھے، ہر گھر میں جنسیت کے جھانجر چھن چھن کر رہے تھے۔ رات آہستہ آہستہ سرکتی ہوئی اپنی موت کی جانب رواں تھی۔ تمام شہر کے افراد تھک کر اسی حالت میں سو گئے، جس حالت میں موجود تھے۔ سورج نے بھی انگڑائی لی اور جاگ گیا، صبح کے آٹھ بج رہے تھے، سارے شہر پر ایک سناٹا چھایا ہوا تھا کہ اچانک زمین ہل سی گئی۔ ایک آتش فشاں پہاڑ یعنی ماؤنٹ وسویس کے دہانے پر واقع ہونے کے باوجود یہ شہر ہر قسم کے خطروں سے بے نیاز اپنی رنگ رلیوں میں مصروف تھا ۔کہ اچانک اس قصبے کے قریب واقع ویسویس کے آتش فشاں پہاڑ سے لاوا پھوٹ پڑا۔ یہ آتش فشاں اس قدر شدت سے پھٹا کہ آسمان میں دور دور تک اس کی راکھ اور پتھر اُڑنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں لاکھوں ٹن وزنی دہکتی راکھ پومپئی شہر پر آگری۔ پومپئی شہر کے 20 ہزار افراد موقع پر ہلاک ہوگئے۔ تین دن تک یہ آتش فشاں آگ اور لاوا اُگلتا رہا اور اس شہر کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔
اس دور کا انتہائی ترقی یافتہ یہ شہر 4 سے 6 میٹر (13 سے 20 فٹ) راکھ کے نیچے دفن ہوگیا۔ لاوے کے ٹھنڈا ہونے کے بعد اس مقام کی تلاش تک ناممکن ہوگئی کہ جہاں یہ شہر آباد تھا۔ کئی صدیوں تک یہ علاقہ صرف اور صرف راکھ کا ایک ڈھیر تھا۔ 1748 عیسوی میں ایک دن یہ شہر حادثاتی طور پر دریافت ہوگیا۔ ہوا یہ کہ ایک کسان پانی کی تلاش میں کنواں کھود رہا تھا کہ اسے پانی تو نہیں ملا مگر اسے وہ شہر مل گیا۔ بیس ہزار نفوس کی لاشیں 1600 برس تک زیر زمین دبی رہیں۔ اس سانحہ کو ایک رومن لکھاری "پلینی دی ینگر” نے لکھا، جو اس وقت وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا اور ایک محفوظ مقام پر کھڑا تمام مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کا چچا "پلینی دی ایلڈر” دیگر شہریوں کے ہمراہ موت سے ہم کنار ہوچکا تھا۔ 18 ویں صدی میں پومپئی کی کھدائی کا کام شروع ہوا اور اس کھدائی کے نتیجے میں روم کے اس قصبے کی رنگین زندگی کا انکشاف ہوا۔
پومپئی کے نزدیک ایک اور آبادی بھی آتش فشاں پہاڑ کا شکار بنی تھی ۔ یہ آبادی آتش فشاں پہاڑ کے لاوے سے تباہی شکار ہونے سے بچ گئی تھی، کیونکہ کھولتی ہوئی گیلی مٹی (کیچڑ) سے تباہی سے ہمکنار ہوئی تھی، جو مکانوں پر برسی۔ یہ کھولتے ہوئے لاوے کی نسبت مکانات کی تباہی کا کم باعث ثابت ہوئی تھی۔ اس مٹی نے مکانات کو محفوظ بنا دیا تھا جو کہ اب اپنی اصلی حالت میں واپس لائے جا چکے ہیں۔ یہ مکانات اٹلی میں دو ہزار برس بیشتر گزاری جانے والی زندگی کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ پلینی دی ینگر تقریبا 18 میل دور ایک قصبے میں قیام پذیر تھا اور اس نے دور سے ماؤنٹ ویسوویئس کے پھٹنے کا مشاہدہ کیا۔ انہوں نے 25 سال بعد اپنے تجربات کے بارے میں لکھا، جس سے مورخین نے اس واقعے کو بڑی بصیرت بخشی۔ باقی جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ آثار قدیمہ کے مطالعے کے ذریعے مل کر تیار کیا گیا ہے۔ کھنڈرات کی کھدائی کے ماہرین نے دیکھا کہ اس کے تھیٹر، کھیل کے میدان، مارکیٹیں اور سوئمنگ پولز جوں کی توں حالت میں موجود تھے۔
یہ عذاب اس شہر کے مکینوں پر اس وقت نازل ہوا کہ جب ان کی اکثریت گناہ آلود سرگرمیوں میں ملوث تھی۔ اس شہر کی دریافت کے بعد کھدائی کی گئی توماہرین آثار قدیمہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے تھے کہ لوگ مردہ حالت میں محفوظ ہیں اور ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے قدرت نے اخلاق باختہ حرکتیں کرنے والی قوم کو آنے والی دنیا کے لئے نشانِ عبرت بنا دیا ہو۔ جو شخص جس حالت میں تھا اسی حالت میں رہ گیا۔ آج بھی جب پومپئی کی باقیات دریافت ہوتی ہیں تو وہاں کے رہنے والوں کی لاشیں بے گور و کفن اسی حال میں ملتی ہیں جس میں وہ اپنے آخری وقت میں موجود تھے۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ، مرد، عورتیں بدفعلیوں میں مصروف تھے۔ کئی گھروں میں روزمرہ معمولات زندگی کے آثار بھی ملتے ہیں جو جوں کے توں ایسے ہی رکے ہیں جیسے کسی نے اچانک انہیں ساکت کردیا ہو۔
اس شہر کا زیادہ تر حصہ دریافت کرلیا گیا ہے۔ کھدائی ابھی بھی جاری ہے۔ تقریباً ڈیڑھ ہزار لاشیں صحیح سالم حالت میں نکال کر محفوظ کی جا چکی ہیں۔ اس شہر سے آلات جراحی بھی ملے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ طبی سہولیات پہلی صدی میں رومیوں کی ایجاد ہے۔ یہ آتش فشاں پہاڑ 1944 میں آخری بار پھٹا تھا اور 77 سال سے خاموش ہے، پھر نا جانے کب اپنی جولانی دکھائے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اب بھی اس کے آس پاس کئی شہر آباد ہیں۔