طالبان کابل کے قریب، متعدد علاقوں پر کنٹرول حاصل کرلیا
کابل: افغان طالبان تیزی سے افغانستان کے شہروں کا کنٹرول حاصل کرنے لگے، 17 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرلیا، ہرات کے بعد قندھار اور لشکر گاہ کا بھی کنٹرول حاصل کرلیا، ہرات میں طالبان سے برسرپیکار ملیشیا کمانڈر اسماعیل خان، گورنر ہرات اور صوبائی پولیس چیف کو طالبان نے گرفتار کرلیا۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق طالبان کے شدید ترین مخالف کمانڈر اسماعیل خان کو گرفتار کرلیا گیا۔ ہرات پر قبضے کے بعد طالبان نے اسماعیل خان، گورنر ہرات، نائب وزیر داخلہ اور صوبائی پولیس چیف کو حراست میں لے لیا۔
اسماعیل خان کے ہمراہ لڑنے والے 207 کمانڈوز نے بھی ہتھیار ڈال دیے۔ طالبان نے قیدیوں کو نقصان نہ پہنچانے اور ان سے عزت کے ساتھ پیش آنے کی یقین دہانی کرادی۔
طالبان نے ہرات ایئرپورٹ سے بھارتی لڑاکا طیارہ بھی قبضے میں لے لیا۔ اس سے پہلے قندوز ایئرپورٹ سے بھارتی ہیلی کاپٹر طالبان کے ہاتھ آیا تھا۔ طالبان نے صدر اشرف غنی کے آبائی صوبے لوگر پر بھی مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔
افغانستان میں حکام کے مطابق افغان طالبان نے دارالحکومت کابل سے محض 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع صوبہ لوگر کے دارالحکومت پلِ علم پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس سے قبل طالبان نے قندھار اور جنوب میں اہم شہر لشکرگاہ پر بھی قبضہ کرلیا تھا اور افغان سیکیورٹی ذرائع نے اس کی تصدیق بھی کردی تھی۔
قندھار اور لشکر گاہ کی فتح کے بعد اب افغانستان کی حکومت کے ہاتھ میں صرف ملک کا دارالحکومت اور دیگر کچھ علاقے باقی بچے ہیں۔
دوحہ میں موجود طالبان ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ خارجی قوتوں کی جانب سے مسلط کی گئی حکومت کو تسلیم کرنا ان کے اصولوں کے خلاف ہے۔
ادھر برطانوی وزیر دفاع بین والس نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کو بڑی غلطی قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ افواج کی واپسی سے طالبان مضبوط ہو گئے، افغانستان خانہ جنگی کا شکار ناکام ریاست بن چکی، وہاں سے القاعدہ کے دوبارہ ابھرنے کا خدشہ ہے جو مغرب کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا کہ امریکا نے طالبان سے سفارت خانے پر حملہ نہ کرنے کی گارنٹی مانگ لی ہے۔ امریکا نے افغانستان سے سفارتی عملہ نکالنے کی ہنگامی تیاریاں شروع کردیں۔
پینٹاگون کے مطابق 3 ہزار امریکی فوجی 24 سے 48 گھنٹے میں کابل پہنچ جائیں گے، تاہم یہ فوجی طالبان کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہیں کیے جائیں گے۔
ترجمان امریکی دفترخارجہ نیڈ پرائس نے کہا کہ کابل میں سفارت خانہ کھلا رہے گا اور کام جاری رہے گا۔
برطانیہ نے بھی افغانستان سے اپنے شہریوں کو نکالنے کے لیے 600 فوجیوں کو بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ چار ہزار برطانوی شہری اب بھی افغانستان میں مقیم ہیں۔