کراچی کے اسٹریٹ آرٹسٹ

نثار نندوانی

یہ بات بالکل سو فیصد درست ہے کہ شاعر اور مصور پیدائشی ہوتے ہیں ، ایسا نہیں کہ ماں کی کوکھ سے نکلتے ہی یہ سب ممکن ہے مگر وقت کے ساتھ یہ فن اجاگر ہوتا ہے۔

فن مصوری کے ذوق و شوق کے آثار بچپن میں ہی ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور بچہ دیوار پر تصاویر بنا کر اپنی صلاحیتوں کا اظہار شروع کر دیتا ہے ، شاعری کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ، شاعر کے ذہن میں آنے والا تخیل شاعری میں اور مصور کے ذہن میں آنا والا خیال پینٹنگز کی صورت میں سامنے آتا ہے۔شاعر اور فن مصوری میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ، ایک پیدائشی و فطری اور دوسرے تعلیم اور تیکنک والے ہوتے ہیں۔ کچھ کے پاس وسائل ہوتے جو ان کی شہرت کا سبب بنتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس کاغذ قلم اور چند پینسلوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا ، ہم نے دیکھا وسائل والے لوگ اپنی آرٹ گیلریاں بنا لیتے ہیں اور شاعر حضرات سرکاری نوکر ہونے کی وجہ سے صاحب دیوان بن جاتے ہیں۔

میرے نزدیک فنکار بھی کسی جادوگر سے کم نہیں ہوتے جو عام سے دکھنے والے مناظر سے مسحورکن فن کو تخلیق کر دیتے ہیں۔ مٹی کا ایک مجسمہ اپنی حالت سے نہ جانے کتنی کہانیاں بیان کر رہا ہوتا ہے۔ پینسل سے کھنچی لکیریں ایک منظر، ایک احساس کو اپنے اندر سمو لیتی ہیں اسٹریٹ آرٹسٹ ہمارے معاشرے کے ایسے آرٹسٹ ہیں ، جنہوں نے اپنے فن کے اظہار کے لئے آرٹ گیلری کی بجائے عوامی مراکز یعنی بازار ، گلیاں اور دیگر تفریحی مقامات کا انتخاب کیا ہے۔  ایسے آرٹسٹوں کو ’’اسٹریٹ آرٹسٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں موجود ہیں۔ یہ آرٹسٹ لوگوں کے پورٹریٹ اور اسکیچز بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے ہی آرٹسٹ کراچی شہر میں بھی موجود ہیں۔ زیب النساء اسٹریٹ اور زینب مارکیٹ ان آرٹسٹوں کا قدیم مرکز تھا جبکہ کلفٹن (سی ویو) پر بھی ایسے آرٹسٹ اب نظر آنے لگے تھے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ زیب النساء اسٹریٹ اور زینب مارکیٹ میں موجود یہ آرٹسٹ ان بازاروں کا حسن ہیں، تو یہ غلط نہ ہو گا۔ان آرٹسٹوں نے انگریزوں کے دور میں ان علاقوں میں بیٹھنا شروع کیا ،جب زیب النساء اسٹریٹ ’’الفنسٹن اسٹریٹ‘‘ کہلاتی تھی۔1980 کے دور میں جب غیر ملکی سیاح بڑی تعداد میں کراچی آتے تھے ، غیر ملکی ایئر لائنز کا عملہ ، غیر ملکی بحری جہازوں کا عملہ ، اندرون ملک سے آئے لوگ اپنے خاکے بنوائے میں دلچسپی لیتے تھے ۔

ویسے تو وہاں کئی آرٹسٹ موجود تھے مگر میری واقفیت صرف چار آرٹسٹوں سے تھی جن میں ایک زینب مارکیٹ میں موجود ایم ظفر دوسرے زیب النساء اسٹریٹ پر  محمد عارف تیسرے ایس قمر اور چوتھے غلام محمد عرف گلو بادشاہ جسے لوگ شاہ جی بھی کہتے تھے ، ان کا ٹھکانہ تراب اسٹوڈیو کے نیچے الائیڈ بنک کے برابر میں جہاں آج کل اے ٹی ایم مشین نصب کر دی گئی ہے۔ گلو بادشاہ سے میری خوب دوستی رہی ہم ایک دوسرے کو اشعار بھی سناتے تھے ، ان کی ایک عادت تھی کہ وہ ایف ایم ریڈیو کے لائیو پروگرام میں روز شرکت کرتے تھے اور اشعار سنانے کے ساتھ بعد کسی دوست کیلئے گانے کی فرمائش کرتے تھے ، انہیں میں نے کئی شاعری کی کتابیں تحفتاً دیں ، 1995 کے بعد وہ مجھے کہیں نظر نہیں آئے اور نا ہی ان کے بارے میں کسی کو معلوم ہے ، وہ تنہا تھے اور ڈیفینس کی ایک خاتون سے انہیں عشق تھا جو ایک بار ان کے سامنے تین گھنٹے تک بیٹھی رہی اور گلو بادشاہ ان کا اسکیچ بناتے رہے ، خاتون بھی کافی متاثر تھیں مگر حالات نے شاید اجازت نہیں دی ۔  زینب مارکیٹ میں موجود ایم ظفر نامی آرٹسٹ گذشتہ 30 برسوں تک تو وہاں موجود رہے مگر کراچی کے سیاہ ترین حالات میں کہیں گم ہو گئے ۔زیب النساء اسٹریٹ پر موجود  ایس قمر نامی تیسرے آرٹسٹ جن سے دعا سلام تھی ،  اپنے خاندان کے ہمراہ 1947ء میں کانپور سے ہجرت کر کے کراچی آئے تھے اور قریباً تین دہائیوں سے زائد عرصے سے زیب النساء اسٹریٹ کی فٹ پاتھ پر بیٹھ کر تصاویر اور اسکیچز بناتے رہے ۔ ان کے مطابق انہوں نے فن مصوری اپنے ماموں سے سیکھی ، جو اس زمانے میں شہر میں چلنے والی ٹراموں اور بسوں پر مختلف کمپنیوں کی پروڈکٹس کی پینٹنگز کرتے تھے ، ان کی صحبت میں ہی انہوں نے یہ فن سیکھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس آرٹ کی کوئی باقاعدہ ڈگری نہیں ،مگر بہت سے ڈگری یافتہ فائن آرٹ کے شعبے سے منسلک افراد اور طالب علم امتحانات اور نمائشوں میں رکھنے کے لئے ہم سے اپنے نام پر پورٹریٹ بنواتے رہے ہیں ۔ایس قمر کی لاجواب پینٹنگز واٹر کلر، چارکول اور آئل پینٹ سے بنی ہوئی ہوتی تھیں ۔ ان کے ہاتھ سے بنائے ہوئے کچھ پورٹریٹ کیمرے سے بنائی گئی تصاویر محسوس ہوتی تھیں۔انہوں نے قائداعظمؒ اور دیگر قومی رہنماؤں کے علاوہ بے نظیر بھٹو کا بھی خوبصورت پورٹریٹ بنایا ہے۔زیب النساء اسٹریٹ پر گذشتہ 16 برس سے موجود اسٹریٹ پورٹریٹ آرٹسٹ 53 سالہ محمد عارف جو انگلش بوٹ ہاؤس کے باہر فٹ پاتھ پر بیٹھتے تھے محمد عارف بتاتے تھے کہ  ہمارے پاس پین انک اسکیچ اور چارکول کا کام زیادہ ہوتا تھا۔انہوں نے بتایا تھا کہ پورٹریٹ آرٹ میں اس کا کوئی استاد نہیں ، وہ پیدائشی آرٹسٹ ہے۔ میرا بچپن ہی سے تصویریں بنانے کا شوق تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ میری فنکارانہ صلاحیتیں بھی میری طرح بالغ ہوتی گئیں۔ وہ کہتے تھے کہ 80 کی دہائی کراچی کیلئے دبئی جیسی تھی کوئی بھی کام کرنے والا بے روزگار نہیں تھا ۔

میں نے ایک بار گلو بادشاہ سے پوچھا کہ آپ آرٹ گیلری میں نمائش کیوں نہیں کرتے اس نے کہا نثار صاحب جب یہاں روز دنیا دیکھ رہی ہے اس سے بڑی نمائش اور کیا ہو سکتی ہے ۔ کیا یہ کافی نہیں کہ ہمارے فن کی تعریف کرنے والے سب ہیں مگر اقبال مہدی اور گل جی کو چند مخصوص لوگ جانتے ہیں ۔جب کراچی کے حالات پر کالے بادل چھا گئے تو ایک بار اس نے مجھ سے اداس لہجے میں کہا نثار صاحب لوگ ایک فنکار کیلئے تعریفیں سب سے اہم ہیں لیکن تعریفوں سے کچھ نہیں ہوتا ،  اسکول والے تعریفیں فیس کے طور پر نہیں لیتے ، صبح دودھ والا تعریفیں دینے سے دودھ نہیں دیتے ، اس دنیا کے دستور کو حقیقت کی نظر سے دیکھنا چاہیے۔آج جب میں سوچتا ہوں تو ماضی کے سنہرے دن سیاہ ہو گئے ، وہ لوگ نہ جانے کہاں کھو گئے ، میرے شہر عروس البلاد کو اپنے کھا گئے ، اب یہ دنیا کا وہ میٹرو پولیٹن شہر ہے جس کے پاس اپنی کوئی پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں ، جہاں غیر ملکی آ کر اپنی کتابیں لکھتے تھے ، اپنے ساتھ اس شہر کی تصاویر اپنے کیمروں میں محفوظ کر کے لے جاتے تھے ، ھائے شام غریباں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔