کیپٹن کرنل شیر خان: وہ جس کی تعریف دشمن بھی کرے
سنہ 1999 کی بات ہے کارگل جنگ کے دوران پاکستان سے ایک شہید ایسا بھی لوٹا جس کی جیب سے پرچی نکلی اور دشمن نے اس پرچی میں لکھا تھا کہ یہ بہادر فوجی بڑی مہارت سے لڑا اسے اس کا حق ملنا چاہیے۔
فوجی وہ جس کی تعریف دشمن فوج بھی کرے اور شدید لڑائی کے باوجود بھی ان کی بہادری کے قائل ہو جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ سنہ 1999 کی کارگل جنگ کے دوران ٹائیگر ہل کے محاذ پر پاکستانی فوج کے کپتان کرنل شیر خان نے اتنی بہادری کے ساتھ جنگ کی کہ انڈین فوج نے ان کی شجاعت کا اعتراف کیا۔
بریگیڈیئر ایم ایس باجوہ جن کے ہاتھ میں اس لڑائی کی کمانڈ تھی کا کہنا ہے کہ جب یہ جنگ ختم ہوئی تو میں اس افسر کا قائل ہو چکا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے 71 کی جنگ بھی لڑ چکا ہوں۔ میں نے کبھی پاکستانی افسر کو ایسے قیادت کرتے نہیں دیکھا۔
کیپٹن کرنل شیر خان پاکستان کے موجودہ صوبے خیبرپختونخوا کے گاؤں نواکلی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے دادا نے کشمیر میں سنہ 1948 کی مہم میں حصہ لیا تھا۔ انھیں فوج سے بے حد محبت تھی چنانچہ ان کے یہاں جب پوتا پیدا ہوا تو انھوں نے کرنل کا لفظ ان کے نام کا حصہ بنا دیا۔
کرنل شیر نے اکتوبر سنہ 1992 میں پاکستانی فوجی اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ بھرتی ہوتے وقت انھیں داڑھی صاف کرنے کو کہا گیا تھا تو انھوں نے انکار کر دیا۔ کارگل کے معرکے میں انہوں نے جامِ شہادت نوش کیا جس پر انہیں پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا گیا۔
شہادت کے بعد تابوت کو پاکستانی فضائیہ کےطیارے میں کراچی لے جایا گیا جہاں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی پھر ان کے تابوت کو اسلام آباد لے جایا گیا جہاں ایک بار پھر نماز جنازہ ادا کی گئی۔ جنازہ ادا کرتے وقت پاکستان کے صدر رفیق تاڑر بھی موجود تھے۔ اس کے بعد ان کی میت کو آبائی گاوُں لے جایا گیا جہاں انہیں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کے اس گاوُں کا نام اب ان کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔