ماں اور بچے کی صحت ایک بنیادی مسئلہ
تعلیم اور صحت دو ایسی بنیادی ضروریات ہیں، جو صحت مند اور اچھے معاشرے کے لیے ضروری ہیں۔ ان دونوں ضروریات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں جاری طاقت کی دور میں بھی دفاعی اور ترقیاتی بجٹ کے ساتھ ساتھ جو سب سے زیادہ رقم رکھی جاتی ہے وہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے رکھی جاتی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں تعلیم اور صحت کے لیے بہت معمولی بجٹ رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا تعلیمی نظام زبوں حالی کا شکار ہے اور صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سونے پر سہاگا نجی تعلیمی اور طبی مراکز نے عوام کے لیے جینا بھی مشکل کر دیا ہے۔
پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں ناکافی طبی سہولیات کی بناء پر 89 میں سے ایک خاتون دوران حمل ہونے والی پیچیدگیوں یا زچگی کے دوران زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔ پاکستان میں بنیادی مراکز صحت کا نظام اس سطح کا نہیں کہ وہ حاملہ خواتین کے لیے مناسب ہو۔ ہمارے صحت کے اشاریے تیسری دنیا کے ممالک میں نچلی سطح پر ہیں۔
غربت اور بنیادی صحت کے مراکز کم ہونے کی وجہ سے پاکستان کا تقریبا ہر صوبے میں زچہ اور بچہ کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ ہر 22 میں سے ایک بچہ ہر ماہ دوران پیدائش دم توڑ رہا ہے۔ عالمی اداروں کے مطابق پاکستان میں ماں اور بچے کی صحت سے متعلق علاج کی سہولیات کے لحاظ سے بلوچستان سب سے پیچھے ہے جہاں دوران زچگی شرح اموات ملک کے باقی صوبوں کے مقابلے میں خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ پاکستان میں خواتین کی تولیدی صحت کے مسائل شہری علاقوں سے زیادہ دیہی علاقوں میں پیش آتے ہیں۔ سندھ کی 40 فیصد سے زائد خواتین دیہی علاقوں میں رہتی ہیں جنہیں دوران زچگی صحت کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں قائم لیڈی ڈفرن اسپتال ماؤں کی زندگی بچانے کے لئے کئی دہائیوں سے کوشاں ہے۔
لیڈی ڈفرن اسپتال کے میڈیکل سپرئنڈنٹ پروفیسر ڈاکٹر زریاب سیتنا پاکستان میں دوران حمل زچہ اور بچہ کے فوت ہوجانے کی شرح میں اضافہ بہت پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے تمام علاقوں سے لیڈی ڈفرن اسپتال میں مریض آتے ہیں تاہم یہ بات قابل فخر ہے کہ گذشتہ 5 سالوں کے دوران ان کے اسپتال میں اموات کی شرح صفر ہے۔ حال ہی میں اس اسپتال کی نئی بلڈنگ کا افتتاح کیا گیا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر زریاب سیتنا کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ نئی عمارت ایک اسٹیٹ اف دی آرٹ اسپتال ہے جو 300 بیڈز اور 3 جدید اپریشن تھیٹرز پر مشتمل ہے۔ زچگی کے دوران اموات کو کم کرنے کے لئے بنیادی صحت کے مراکز میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ فیملی پلاننگ کے حوالے شہریوں زیادہ سے زیادہ اگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹرسٹ کے تحت چلنے والے لیڈی ڈفرن اسپتال کے ڈونرز میں سندھ حکومت کا محکمہ صحت بھی نمایاں ہے۔ سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو بھی کئی مرتبہ اس اسپتال سے مستفید ہوچکی ہیں۔ سن 1988 میں بے نظیر بھٹو نے اسی اسپتال میں پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو ذرداری کو جنم دیا۔ پیپلز پارٹی کی ایم پی اے سعدیہ جاوید کا کہنا ہے کہ زچگی کے دوران اموات پورے ملک کا مسٗلہ ہے اس کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو دوران حمل طبی سہولت کے ساتھ ساتھ بہتر غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے بھی اقدامات کرنے ہونگے۔
1983 سے دوران حمل پیچیدگیوں سے ماں اور بچے کو بچانے کے لئے کام کرنے والی معروف گائناکولوجسٹ ڈاکٹر عمرانہ نیئر کہتی ہیں طبی لحاظ سے اس مسئلہ کے تدارک کے لئے تین مختلف مراحل پر خصوصی توجہ درکار ہوتی ہے۔ حمل کے شروع میں، حمل کے دوران اور حمل کے بعد بھی ماں اور بچے کے لئے احتیاط کی ضرورت ہے۔ کمیونٹی کی سطح پر صحت کے مراکز قائم کیے جانے کی ضرورت ہے، جیسا کہ حاملہ خواتین کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکرز کا نظام ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی پیدائش میں وقفے سے نہ صرف اموات میں کمی ہوگی بلکہ ماں اور بچے کی صحت پر مثبت اثرات پڑیں گے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ تربیت یافتہ لیڈی ہیلتھ ورکرز ہوں تو ہر دس میں سے نو بچے محفوظ طریقے سے گھر میں ہی پیدا ہوسکتے ہیں، مگر اس کے لیے صحت کے بنیادی مراکز کو فعال اور عملے کی تربیت کے انتظامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان میں حاملہ خواتین اور بچوں کی صحت کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکرز کا نظام سنہ 1993 میں وضع کیا گیا تھا اور ملک بھر میں صحت کے بنیادی مراکز قائم کیے گئے تھے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کا پروگرام آیا تو یہ فائدہ ہوا کہ خواتین میں آگاہی پیدا ہوئی اور وہ اپنے علاج کے لیے باہر نکلیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعداد انتہائی کم ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے تمام صوبائی حکومتوں، شہری حکومتوں اور وفاق کو مل کر ایک بڑا انفرا اسٹرکچر بنانا ہوگا تاکہ ہم ایک صحت مند معاشرے کی بہتر تشکیل کرسکیں۔