بے نظیر بھٹو، ایک بہترین ماں

سترویں سالگرہ کی مناسبت سے خصوصی تحریر

زاہد حسین

آج اسلامی دُنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی 70 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔ پاکستان میں سیاسی تاریخ بھٹو خاندان اور بھٹو خاندان کی سیاسی تاریخ محترمہ بے نظبیر بھٹو کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ غیر منقسم ہندوستان کی ریاست جوناگڑھ میں سر شاہ نواز بھٹو سے شروع ہونے ولا سیاسی سفر ابھی بلاول بھٹو زرداری کی صورت میں جاری ہے۔

اگرچہ اب نسلی اعتبار سے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت بھٹو خاندان کے ہاتھ سے نکل چکی ہے اور اب اس کی عنانِ سیاست زرداری خاندان کے ہاتھ میں ہے، لیکن بھٹو خاندان کے سیاسی اثر رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے موجودہ چیئرمین اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے صاحب زادے بلاول بھٹو زرداری نے اپنے نام کے ساتھ "بھٹو” کا لاحقہ بھی لگا رکھا ہے۔

چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پاکستان کی وہ سیاسی شخصیت ہیں، جنہوں نے آنکھ کھولتے ہی ملکی سیاست کو اپنے ارد گرد پایا۔ کبھی اقتدار کے ایوانوں میں بچپن کی راہداری سے گزرے اور کبھی اپوزیشن کے دور میں باپ کی قید کے دوران ماں بے نظیر بھٹو کا ہاتھ پکڑ کر جیل کے دروازے پر کڑی دوپہریں گزاریں۔ ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی پیدائش کے بعد سے ہی ملکی سیاسی عمل کو نہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد خود بھی ملکی سیاست میں وہ کردار ادا کیا، جو اس سے قبل کسی نے ادا نہیں کیا تھا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کا تحریکی سفر 1980ء کی اوائلِ دہائی میں لندن کے ہائیڈ پارک سے شروع ہوا۔ پاکستان میں انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز 1986ء لاہور سے کیا۔ اپنے کڑے سیاسی کیریئر کے عروج میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شادی آصف علی زرداری سے ہوگئی اور ایم آرڈی کی تحریک کے نتیجے میں دسمبر 1988ء میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 16 اور 19 نومبر 1988ء کو کرانے کا اعلان کردیا گیا۔

اس وقت بے نظیر بھٹو امید سے تھیں اور یہ تاریخ لگ بھگ وہی تاریخ تھی جس کے آس پاس بے نظیر بھٹو کے ہاں ولادت متوقع تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس وقت مشکل فیصلہ کیا۔ بے نظیر بھٹو کراچی میں لیاری کے دورے پر تھیں۔ ان کی ریلی عوام کے سیلاب کے ساتھ رواں دواں تھی کہ ریلی کے شرکاء نے محسوس کیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی گاڑی نظر نہیں آرہی۔ ہوا یہ کہ بے نظیر بھٹو نے ڈرائیور سے کہا کہ وہ گاڑی کا رخ لیڈی ڈفرن اسپتال کی جانب موڑ لے۔ وہ اپنے قافلے سے الگ ہوکر اچانک لیڈی ڈفرن اسپتال پہنچیں۔ اِدھر لاکھوں کا مجمع لیاری میں بے نظیر بھٹو کی آمد اور خطاب کا منتظر تھا اور دوسری جانب لیڈی ڈفرن اسپتال میں بے نظیر بھٹو کا آپریشن کیا جارہا تھا، جہاں بلاول بھٹو زرداری وقت سے دو ماہ قبل پیدا ہوئے۔ اس طرح بے نظیر بھٹو نے اعلان کردہ تاریخوں میں عام انتخابات میں حصہ لے کر مخالفین کی سیاسی چال کو ناکامی سے دوچار کردیا۔

بے نظیر بھٹو دنیا کی واحد وزیراعظم ہیں، جن کے ہاں وزارتِ عظمیٰ کے دوران ولادت ہوئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران بختاور بھٹو زرداری نے دنیا میں قدم رکھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے سیاسی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی نگہداشت اور پرورش میں بھی بہترین کردار ادا کیا۔

وزارتِ عظمیٰ سے محروم کیے جانے کے بعد ان کے خاندان نے مشکلات کا طویل دور گزارا۔ آصف علی زرداری کے قید کے دوران بے نظیر بھٹو کے بچے ماں کی انگلی پکڑے لانڈھی جیل کے گیٹ پر کھڑے ہوکر باپ سے ملاقات کا انتظار کیا کرتے تھے۔ یہ بظاہر ایک عام سا عمل لگتا ہے، لیکن یہی وہ لمحات ہیں، جہاں سے بلاول بھٹو کی سیاسی تربیت کا آغاز ہوتا ہے۔ بے نظیر بھٹو نے بحیثیت ماں اپنی ذمے داریاں بہترین انداز میں انجام دیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کو گھر میں خود پڑھایا بھی اور ان کے ساتھ بیٹھ کر عام والدین کی طرح کھیلا بھی کرتی تھیں۔

تین برس قبل چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے برطانوی اخبار کے لیے لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں کہا تھا کہ بے نظیر بھٹو نے ثابت کیا کہ ایک ماں وزیر اعظم بھی ہوسکتی ہے۔ اپنے مضمون میں بلاول نے لکھا کہ کامیابیوں کے باوجود بے نظیر کو بطور خاتون اپنی حیثیت ثابت کرنا پڑتی تھی۔ بلاول نے کہا کہ تمام تر چیلنجز کے باوجود انہوں نے اپنی ماں کو کبھی شکایت کرتے نہیں دیکھا۔ بے نظیر نے سیاسی سفر جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کی علامت کے طور پر کیا۔ اپنے مضمون میں بلاول کا مزید کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو نے جمہوریت کے لیے طویل جنگ لڑی۔ انہوں نے میرے والد سمیت سیاسی قیدیوں کے لیے آواز اٹھائی۔ میرے والد کو ساڑھے 11 سال بغیر سزا کے جیل میں رکھا گیا۔ انہوں نے اپنے مضمون میں کچھ تصاویر بھی شامل کیں جن میں بے نظیر بھٹو وزارت عظمیٰ اور دیگر سیاسی سرگرمیوں میں اپنے بچوں کے ساتھ موجود ہیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی پرورش اگرچہ مغربی انداز میں ہوئی اور انہوں نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم، ملک میں بہترین سیاسی پوزیشن، اقتدار کے مزے اور اپوزیشن میں ہونے کے دوران پیش آنے والی سختیاں بھی انہیں اپنے بچوں سے دور نہ کرسکیں۔ نواز شریف اور پرویز مشرف ادوار میں اپنے سیاسی جلاوطنی کے دوران دبئی میں جس طرح اپنے بچوں کی تربیت کی وہ بھی ان کی زندگی کا ایک اہم باب ہے۔ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ بے نظیر بھٹو ان گنے چنےعالمی رہنماؤں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے جس قدر محنت اپنے سیاسی کیریئر کے لیے کی، اتنی ہی محنت اور کوشش انہوں نے اپنے بچوں کی تربیت پر بھی کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری اس وقت پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور ملک کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔