مہنگائی کی بڑھتی شرح اور حکومتِ پاکستان
تحریر: سید علی رضا
اگر آپ کراچی کے باسی ہیں اور اشیاء ضرورت خریدنے کے لیے بازار جائیں تو آپکو ایک ہی چیز کی مختلف دکانوں سے مختلف قیمتیں ملیں گی۔ ہر شخص اپنے رہائشی علاقے یا قریبی دکانوں سے خریداری کرنے کا خواہاں ہوتا ہے مگر پھر بھی دکاندار اپنی مرضی کی قیمتیں بتا کر شہریوں کو لوٹنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ آپ کسی پارک یا پکنک پوائنٹ پر جائیں تو وہاں بھی آپ کو کھانے پینے کی اشیاء مارکیٹ کی نسبت زیادہ دگنی قیمت پر دستیاب ہوں گی،پوش ایریاز میں بھی اشیاء دُگنے نرخوں پر فروخت کی جاتی ہیں۔
آپکوشہر بھر میں کسی بھی چیز کی قیمت یکساں نہیں ملیں گی۔ اگر ایک بریانی پلیٹ شہر کے کسی علاقے میں 100 روپے کی ہے تو وہی بریانی شہر کے دوسرے کسی علاقے میں 200 کی فروخت ہورہی ہوتی ہے اور ماہِ رمضان کے آتے ہی مہنگائی عام آدمی کی ناک میں دم کردیتی ہے، فقط رمضان کے ایک ڈیڑھ ہفتے میں ہی مہنگائی کی شرح خطرنا ک حد تک بڑھ جاتی ہےاور ماہِ سیام میں مہنگائی کی شرح تقریباَ 19 سے 20 فیصد تک جاپہنچی ہے،وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ۔
ڈھائی سال سے حکومت اور وزراء مہنگائی کا ذمہ دار پچھلی حکومتوں کو ٹہراتےنظر آرہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ جلد ہی اچھے دن آنے کے گُن گا رہے ہیں۔جبکہ آئے دن عوام پر آئی ایم ایف اور کئی ملکوں کے قرضوں کا بوجھ ڈالا جارہا ہے ۔ شاید ابھی تک حکومت کو پناہ گاہ کے علاوہ کوئی آپشن نظر نہیں آرہا ۔ قوم کو پناہ گاہیں اور لنگرخانے کا نہیں بلکہ مضبوط معاشی نظام چاہیے جو ان کو مہنگائی سمیت دیگر پریشانیوں سے بھی نجات دے۔ اگر مہنگائی کے جن پرقابو نہ پایا گیا تو ملک میں باقی نظام کو لیکر چلنا کافی مشکل ہوگا ۔اگر ہم ترقی یافتہ قوموں کی بات کریں، انہوں نے بھی سب سے پہلے ملک میں بےروزگاری و مہنگائی کو کنٹرول کیا تاکہ ملکی معیشت کو باآسانی مستحکم کیا جاسکے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ موجودہ حکومت برسر اقتدار کے آنے کے بعد سے ہی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے تاہم اس میں اب تک کوئی خاطر خواہ نتائج دیکھائی نہ دیئے۔ مہنگائی پر قابوپانا حکومت کے لیے اب بھی کسی چیلنج سے کم نہیں۔ سب سے پہلے تو، مہنگائی پر قابو پانے کے لیے پاکستان میں اشیاء کی پیداوار کو بڑھایا جائے ، ملک میں ہی ان اشیاء کی فروخت ہو اور درآمد شدہ اشیاء میں کمی کی جائے۔ بہترین قسم کے معاشی ماہرین کی ٹیم پر مشتمل ایک جامع منصوبہ بنایا جائے۔ اس پر پوری قوم کو ایک کیا جائے ۔ مافیاز کو کنٹرول کیا جائے۔ اگر رمضان میں اس مہنگائی مافیا کو قابو نہ کیا گیا تو حکومت کو ایک اور بڑے چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔