بی بی سی اردو: پاکستانی اقلیتوں کے حوالے سے اپنی تصیح کرلیں

مہیش کوچرا

میرا نام مہیش کوچرا ہے، میں پاکستان کے شہر کراچی کے علاقے لیاری کا رہنے والا ہوں۔ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر بی بی سی اردو کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں کچھ ہندو لڑکے اور لڑکیوں کو دکھایا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ زیادتی کا رونا رو رہے ہیں، اسکول کی نصابی کتب دھکا کر بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان کی درسی کتابوں میں ہندوؤں کے خلاف پڑھایا جاتا ہے۔ غور سے آپ اس ویڈیو کو دیکھیں تو اس میں نظر آنے والے سارے لڑکے اور لڑکیاں پڑھے لکھے نظر آرہے ہیں، اچھی انگریزی اور اردو کا استعمال، اپنی بات کو دلیل کے ساتھ رکھنے کا ہنر اور تمیز سے اپنی بات پہچانے کا سلیقہ بھی جانتے ہیں۔ اس سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ یہ لڑکے اور لڑکیاں پڑھے لکھے ہیں۔

پاکستانی ہندوؤں کے ساتھ اگر زیادتی ہوتی تو یہ حضرات کو کیونکر تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاتا؟ پاکستان خصوصاً سندھ میں ہندوؤں کے تعلیم یافتہ ہونے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ڈاکٹرز، انجینئیرز، وکیل، سافٹ وئیر انجینئرز وغیرہ کی ایک تعداد ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہے۔ آپ کو ہر شعبے میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے حضرات ملیں گے۔

جہاں تک بات میری ذات کی ہے تو میں اس ملک کا ایک آزاد شہری ہوں۔ میں نے یہاں آنکھ کھولی، تعلیم حاصل کی، اپنے مقاصد کو پایا۔ میں اس ملک میں آزادی کے ساتھ اپنے تہوار مناتا ہوں، صرف ہندو ہی نہیں ہمارے ساتھ مسلمان بھی اس تہوار میں شامل ہوتے ہیں اور ہمیں اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ یہ ملک تمھارا ہے اور تم یہاں اپنے مذہب کی رسومات ادا کرنے میں آزاد ہو جیسا کہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے آزادی کے بعد کہا تھا کہ آپ لوگ آزاد ہو اپنے مندر، مسجد اور گرجا گھر جانے میں۔

صرف یہی تک نہیں قائد اعظم اقلیتوں کا بے حد احترام بھی کرتے تھے، اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ پنجاب کی تقسیم و پاکستان کے بعد مسٹر ایس پی سنگھا کو اسپیکر پنجاب اسمبلی برقرار رکھا گیا۔ یوں قائد اعظم نے اپنا یہ وعدہ پورا کر دکھایا کہ ہم اقلیتوں کے ساتھ مساویانہ نہیں بلکہ فیاضیانہ سلوک کریں گے، دوسرا ثبوت اقلیتوں سے محبت کا یہ تھا کہ جب 10 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوتا ہے تو حلف برداری کے لیے سب سے پہلے جو گندر ناتھ منڈل کا نام پکارا جاتا ہے جب کہ حلف برداری کی تقریب میں دوسرا نام قائد اعظم و تیسرا نام نواب زادہ لیاقت علی خان صاحب کا پکارا جاتا ہے دستور ساز اسمبلی کے اس پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہیں جوگندر ناتھ منڈل، بعدازاں یہی جوگندر ناتھ منڈل اولین وزیر قانون محنت و تعلیم بنائے جاتے ہیں البتہ اسی اجلاس میں قائد اعظم دستور ساز اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد اپنے اولین خطاب میں فرماتے ہیں کہ ’’ اب آپ آزاد ہیں مسجد جائیں، مندر جائیں یا چرچ جائیں آج کے بعد ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کیونکہ ہم سب پاکستان کے شہری ہیں اور پاکستان ہم سب کا ہے۔‘‘

Justice Rana Bhagwan Das

اس کے علاوہ پاکستان میں جسٹس بھگوان داس اور جسٹس کارلینس، چیف جسٹس آف پاکستان رہ چکے ہیں۔ کئی مسیحی تمغہ جرات اور تمغہ بسالت حاصل کر چکے ہیں۔ میرا اپنا تعلق درس و تدریس کے شعبے سے ہے، میں ایک استاد ہوں اور پاکستان میں اسکول سے لے کر گریجوئیٹ تک کہ بچوں کو پڑھاتا ہوں۔ مجھے آج تک کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ میرے مذہب کی وجہ سے کسی طالب علم نے میرے ساتھ کوئی نارواں سلوک اختیار کیا ہو اور ساتھ ساتھ میں نے بھی کبھی کسی کے ساتھ جانبداری نہیں برتی۔

justice Robert Cornelius

ویڈیو میں پاکستان کی درسی کتاب دکھا کر یہ بات بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہندوں اور سکھ قاتل ہوتے ہیں، یہ بات بلکل آدھی پیش کی گئی ہے بلکہ یہ ایک خاص واقعے کی طرف اشارہ ہے جو صرف چند افراد کے لئے ہے، جسے بلکل غلط طریقے سے پیش کرکے اپنے مطلب کا معنی لیا گیا۔ ایسے تو ہم طالبان، داعش وغیرہ کو دہشت گرد کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ سارے مسلمان دہشت گرد ہیں۔ دہشت گردی، ظلم اور جبر کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔

پاکستان ہمارا ملک ہے اور پاکستان کی ہر چیز ہماری ہے ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ ہمیں آج تک کسی نے نہیں کہا کہ بھارت تمھارا ملک ہے وہاں چلے جاؤ یا کرکٹ کے دوران تم بھارتی کرکٹ ٹیم کو سپورٹ کرتے ہو۔
ویڈیو میں ایک اور بات کو حقائق کے خلاف پیش کیا گیا ہے۔ مطالعہ پاکستان کی کسی کتاب میں یہ نہیں لکھا کہ ہندو اپنی لڑکیوں کو زندہ دفنا دیتے تھے، یہ بلکل جھوٹ اور من گھرت بات ویڈیو میں بیان کی گئی ہے۔ یہ واقعہ تو اسلام سے پہلے اہل عرب کے لئے ہے اس کا ہندو مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔

یہی معاشرتی علوم کی کتاب ہمیں قائد اعظم کے بارے میں بتاتی ہے، جو اقلتیوں کے حقوق کے سب سے بڑے علم بردار تھے۔
یہی معاشرتی علوم کی کتاب ہمیں برصغیر کی روشنی کہانی سناتی ہے، جب تمام مذاہب مل جل کر امن کے ساتھ رہتے تھے۔
یہی معاشرتی علوم کی کتاب ہمیں ان صوفیا کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے، جنھوں نے مذہب اور فرقوں سے بلند ہو کر انسانیت کی خدمت کی۔
یہی معاشرتی علوم کی کتاب ہمیں گندھارا تہذیب کے بارے میں بتاتی ہے۔ ہمیں موئن جودڑو اور ہڑپا تہذیب کی کہانی سناتی ہے۔
یہی معاشرتی علوم کی کتاب ہمیں بتاتی ہے کہ ہندوؤں اور سکھوں نے نہیں، بلکہ مفادات پرست اور موقع پرست ہندوؤں اور سکھوں نے مختلف موقعوں پر مسلمانوں کا دھوکا دیا۔

اس ویڈیو کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کو بدنام کرنا ہے، اصل حقائق کچھ اور ہیں جسے دیکھنے کے لئے یہاں ہمارے ساتھ انہیں جینا پڑے گا۔ یہ ویڈیو ایک پروپیگنڈے کے علاوہ کچھ نہیں جس میں حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ پاکستان میں ہر مذہب کو اس کے حقوق حاصل ہیں، یہاں انسان بستے ہیں۔ بلکہ میں تو برملا اس بات کا اظہار کرتا آیا ہوں کہ دنیا کی سب سے پاک اور خوبصورت دھرتی میرا پاکستان ہے۔ تصویر کا ایک رخ دکھانا خیانت اور بد دیانتی ہے اور یہی کچھ بی بی سی اردو نے کیا ہے۔

 

رائٹر ایک یوتھ ایکٹیوسٹ، اینکر اور ٹیچر ہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔