وہ حاملہ تھی. . اس کا مطلب یہ تو دو لاشیں تھیں
اس معاملے کو کافی دن گزر گئے لیکن مجھ میں ہمت نہیں تھی کہ اس موضوع پر کچھ لکھ سکوں۔ یہ واقعہ ایسا تھا کہ قلم لرزنے لگا، ذہن منتشر ہوتا گیا خیال درخیال سوالوں کے دائرے بنتے چلے گئے۔ وہ معصوم اسقاطِ حمل کی تکلیف سے موت کی بازی ہاری ہوگی؟ پہلی دفعہ ایک نئے وجود کی آہٹ کا احساس اس کے لیے کتنا تکلیف دہ ہوگا؟ وہ خوش ہوئی ہوگی؟ لیکن نہیں کوئی راستہ اس کے سامنے نہ تھا اگر ہوتا تو وہ کبھی بھی اس خوشی کو اپنے لیے گناہ اور گندگی تصور کرتے ہوئے خود سے الگ کرنے کی کوشش نہ کرتی۔ اسے اس خوشی سے گھن آتی ہوگی؟ وہ کتنی اذیت میں ہوگی ذہنی اذیت۔ ہاں وہ تو ہے لیکن! میں بھی تو عورت ہوں پہلی دفعہ ماں بننے کے احساس کو میں نے محسوس کیا تھا۔ میں نے بھی درد سہہ کر بچہ پیدا کیا تھا۔ اور وہ درد بھی مجھے یاد ہے جب ڈاکٹر نے مجھے کہا کہ بے احتیاطی کی وجہ اسقاط حمل ضروری ہوگیا ہے۔ اف میر ے خدا! کتنا مشکل مرحلہ تھا، ایسے جیسے کسی جلے ہوئے برتن سے کھانے کو کھرچ کر نکالا جائے۔ وہ درد بچہ پیدا کرنے سے کہیں زیادہ تھا۔ اب بھی کبھی وہ سب کچھ یاد آتا ہے تو روح کانپ جاتی ہے۔ ماں جب درد سے بچہ پیدا کرتی ہے اس وقت حال یہ ہوتا ہے کہ جیسے ابھی موت کا فرشتہ سامنے کھڑا ہے اور اب سانس رک جائے گی لیکن جیسے ہی ننھے وجود کے رونے کی آواز کانوں میں گونجتی ہے سارا درد یوں غائب ہوجاتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
یوں وہ پھر سے خوشی خوشی اس تکلیف کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے، کیوں کہ اپنے وجود سے ننھے جیتے جاگتے وجود کو پیدا کرنا اور اپنے شریکِ حیات سے محبت کے احساس کو زندہ رکھنا عجیب سرشاری کا احساس ہے۔ لیکن جب اتنی تکلیف اٹھانے کے بعد بھی بچہ ہاتھ میں نہ آئے تو اس عورت کے دکھ کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ میں مانتی ہوں بہت سی خواتین خود اپنی مرضی سے اسقاط حمل کرواتی ہیں لیکن میں نہیں سمجھتی کہ کوئی بھی عورت بخوشی یہ سب کررہی ہو۔ میرا شمار تو ان خواتین میں سے ہے کہ جن کے ہاتھ میں نکاح کا سرٹیفیکٹ ہوتا ہے اور کسی بھی ایسی صورت حال میں ماں بھائی شوہر سب موجود ہوتے ہیں۔ لیکن ان بچیوں کا کیا حال ہوتا ہوگا جو تنہا اس مرحلے سے گزرتی ہوں گی جن کے نام کے ساتھ اس مرد کا نام عزت سے لیا نہیں جاسکتا ہو گا جس کا وجود ان کے بطن میں پل رہا ہو۔ اف کتنا اذیت ناک ہے یہ سب کچھ۔
سوشل میڈیا پر گردش کرتی وہ تصویر یا وڈیو دیکھ کر کون ہوتا جو چونک نہ اٹھتا اور اس منظر کا پس منظر جاننے کے لیے بے تاب نہ ہوجاتا۔ اس عکس میں ایک نوجوان، بے حس وحرکت نسوانی وجود کو بازوؤں میں اٹھائے آگے بڑھتا نظر آرہا تھا۔ اس کے چہرے پر بدحواسی اور گھبراہٹ اتنی واضح تھی کہ سی سی ٹی وی کے کیمرے سے سامنے آنے والے منظر کی دھندلاہٹ میں بھی صاف نظر آرہی تھی۔ پہلی نظر میں لگا کہ شاید یہ کسی جنگ زدہ ملک کی وڈیو ہے، جہاں لوگ گولیوں اور بموں سے زخمی ہونے والے اپنے پیاروں کو یوں اٹھائے انھیں زندگی دینے کے لیے کسی اسپتال کا رخ کرتے ہیں، لیکن کیپشن نے بتادیا کہ یہ ہمارے ملک کے شہر لاہور کا منظر ہے اور نوجوان کی بانہوں میں جھولتا جسم کسی زخمی کا نہیں، یہ تو ایک لاش ہے، اور وہ اس کی نہیں اپنی جان بچانے کے لیے اسپتال کی طرف قدم بڑھا رہا ہے، تاکہ لاش سے جان چھڑائی جاسکے۔ ساری کہانی تین لفظوں نے کھول دی ”وہ حاملہ تھی“….اور یہ الفاظ میرے دماغ پر چسپاں ہوکر رہ گئے۔ یہ تو دو لاشیں تھی، دو زندگیوں کا خون ہوا تھا۔
پھر رفتہ رفتہ حقائق سامنے آتے گئے، جن کا تفصیلی ذکر اس لئے نہیں کروں گی کہ مسئلے کے حل کی طرف جانا زیادہ اہم ہے نہ کہ ہم بھاشن دینا، جس کی آڑ میں کسی کو برہنہ کرنے سے بھی گریز نہ کیا جائے، بہت سے لکھاری اب تک یہ فرض بہت خوش اسلوبی سے ادا کرچکے ہیں۔ فقط اتنا کہنا اہم کہ گجرات کی اس مریم کا نام رکھتے ہوئے یقیناً اس کے ماں باپ کے ذہنوں میں مادرِعیسیٰ علیہ السلام کا نام اور شخصیت ہوگی۔ جانے اپنی بیٹی کو بی بی مریم سے موسوم کرنے والے ان ماں باپ کے دلوں پر اب کیا گزر رہی ہوگی۔ وہ مریم بھی معصوم تھی جس کی موت کے وقت اس کے پیارے اس کے پاس نہیں تھے۔ وہ درد کی شدت کو چپ چاپ اس لیے برداشت کرتی رہی کیوں کہ وہ مجبور تھی عزت اور نکاح کا پرچہ اس کے ہاتھ میں نہ تھا، سو وہ کیا کرتی۔
خبروں کے مطابق مریم کی موت اسقاط عمل کی کارروائی کے دوران زیادہ خون بہہ جانے کے باعث ہوئی۔ ہمارے ملک میں ہر سال ایسی کتنی ہی اموات ہوتی ہیں، پھر کچراکنڈیوں سے ملنے والی نوزائیدہ بچوں کی لاشیں، رفاہی تنظیموں کے جھولوں میں ڈال دیے جانے والے بچے…یہ سب ہمارے سماج کا وہ چہرہ دکھارہے ہیں جو ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔ دیکھتے بھی ہیں تو لڑکیوں کی بے راہ روی، ماں باپ کی غیرذمے داری، انٹرنیٹ اور موبائل فون کو ذمے دار قرار دے کر اس معاملے سے جُڑے بہت سے حقائق سے چشم پوشی کرلیتے ہیں۔
وہ حقائق کیا ہیں؟ ان پر بات کرنے سے پہلے ان عوامل کا ذکر ہوجائے جنھیں ایسے واقعات کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے۔ جہاں تک بے راہ روی کا تعلق ہے اس کا سبب کہیں بے جا پابندیاں ہوتے ہیں کہیں بے مہار آزادی۔ حبس زدہ ماحول، شک اور پابندیوں کے سائے میں زندگی بسر کرتی لڑکیوں کو ہوا کا ایک جھونکا، رنگ کی ایک جھلک اور خوشبو بھرا ایک لمحہ بھی فرار کا راستہ دکھانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ پابندیاں ان کے دل ودماغ میں یہ بات بٹھادیتی ہیں کہ وہ ماں باپ اور بھائیوں کے لیے قابل اعتبار نہیں، یہ بے اعتباری انھیں ان رشتوں کا مان رکھنے کے بوجھ سے آزاد کردیتی ہے اور موقع ملتے ہی وہ اپنے لیے ایسی راہ چن لیتی ہیں جو اندھیرے جنگلوں کی طرف جاتی ہے۔ دوسری طرف بعض والدین اپنی مصروفیات میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ وہ اولاد کی تربیت اور اس کی سرگرمیوں سے یکسر بے گانہ ہوجاتے ہیں، عموماً یہی وہ رویہ ہے جسے ہم آزادی کا نام دیتے ہیں۔ یہ آزادی لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے اکثر مہلک ثابت ہوتی ہے۔
بات کی جائے انٹرنیٹ اور موبائل کی تو یہ اب زندگی کا لازمی جزو ہیں، جن کے بغیر ہم میں سے کسی کا گزارہ نہیں۔ یہ ذہنی تربیت ہے جو بچوں کو ان سہولتوں کے غلط استعمال سے روکتی ہے۔
اب آتے ہیں ان حقائق کی طرف جو لاوارث بچوں کے دنیا میں آنے، ان کے قتل اور اسقاط حمل کے دوران اموات جیسے واقعات کا سبب ہیں۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے اثر قبول کرتا ہے۔ خاص کر کچی عمر اور نوجوانی میں یہ اثرپذیری کہیں زیادہ شدت سے ہوتی ہے۔ ایسے میں ٹی وی ڈراموں اور فلموں کی کہانیاں اور مناظر دل ودماغ پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں، یہ جاننے کے لیے ماہرنفسیات ہونے کی ضرورت نہیں۔ بہ طور معاشرہ ہم ان ڈراموں اور فلموں میں تو شاید کوئی تبدیلی لانے کے قابل نہیں، لیکن ہم اپنے رویے ضرور بدل سکتے ہیں۔ جس صورت حال پر بات کی جارہی ہے اس کے ہونے میں نکاح اور طلاق سے متعلق ہمارے رویے بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں شادی ایک نہایت مشکل عمل بنادی گئی ہے۔ ایک طرف لڑکیوں کے والدین لاکھوں روپے کا جہیز اور اتنی ہی رقم کھانے اور رسومات پر خرچ کرنے کی سکت نہ رکھتے ہوں تو بیٹی بیاہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ دوسری طرف لڑکا اور اس کے خاندان کے ہاتھ میں اتنی ہی رقم نہ ہو تو سر پر سہرا سجانے کا خواب خواب ہی رہتا ہے۔ ذات پات، برادری، قبیلہ، قوم، زبان، علاقہ اور مسلک ہی کی بنیاد پر رشتے کرنے کا رجحان شادیوں کی راہ میں ایک اور رکاوٹ ہے۔ اپنے بچوں خاص طور پر بچیوں کو بگاڑ سے بچانے کے لیے ہمیں نکاح کو ہر لحاظ سے آسان بنانا ہوگا۔ اس کے لیے نکاح کو سادگی سے انجام دینا اور جہیز کی رسم کا یکسر خاتمہ ضروری ہے۔ بعض اوقات لڑکیاں شادی کو تعلیم اور کیریر کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ انھیں اس خوف سے نکالنے کے لیے شادی کے بعد لڑکیوں کے حصول تعلیم اور کیریر بنانے کا راستہ روکنے کی روش ترک کرنا ہوگی۔ ہمیں ذات برادری وغیرہ کی تفریق کو بھی رشتوں کی راہ کا پتھر بننے سے روکنا ہوگا۔
معاملہ یہیں تک محدود نہیں رہتا۔ ہم نے نکاح کی طرح طلاق کو بھی مشکل بنادیا ہے۔ اگر کوئی لڑکی خالصتاً جائز وجوہات کی بنا پر بھی شوہر سے طلاق لینا چاہے تو اس کے گھر والوں کی عزت آڑے آجاتی ہے اور کبھی اس کے بوجھ بن جانے کا خیال رشتہ نبھاتے رہنے کے مشورے میں ڈھل جاتا ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ طلاق بے شک اچھی چیز نہیں، لیکن اگر دو لوگ ساتھ نہ رہنا چاہیں یا ان میں سے ایک فریق کے لیے دوسرے کا ساتھ اجیرن بن جائے تو علیحدگی ہی اس مسئلے کا حل ہے، ورنہ مرد کے لیے تو دوسری شادی کا راستہ ہوتا ہے، لیکن عورت کے سامنے بس مجبوری کی بند گلی ہوتی ہے، جس میں وہ گھٹ گھٹ کر زندگی گزارتی ہے یا اپنی شادمانی کے لیے گناہ کا راستہ منتخب کرلیتی ہے۔ لہٰذا ہمیں طلاق کو ایک ”نارمل“ معاملہ سمجھنے کی سوچ اپنانا ہوگی۔
نکاح اور شادی کے بندھن کو آسان ترین بنا کر ہی ہم اس اخلاقی بگاڑ پر بڑی حد تک قابو پاسکتے ہیں جس کی وجہ سے ہر روز کسی نہ کسی ”مریم“ کا دامن داغ دار ہورہا ہے اور قیمتی زندگیاں ”اسقاط حمل کے دھندے“ میں مشغول افراد کی ناتجربہ کاری کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔