بہترین عالمی استاد کا اعزاز جیتنے والے نے نصف انعامی رقم عطیہ کردی!
مہاراشٹر: اقوامِ متحدہ کے ’بہترین عالمی استاد‘ کا انعام جیتنے والے رنجیت سن ڈیسالی نے دس لاکھ ڈالر (پاکستانی 16 کروڑ روپے) کی رقم جیتنے کے بعد انعام کی نصف رقم مقابلے میں شامل دیگر اساتذہ کو عطیہ کردی۔
زِلا پرشاد پرائمری اسکول پارتی وادی نامی گاؤں میں موجود ہے جہاں رنجیت بالخصوص بچیوں کو پڑھاتے ہیں اور ان کی تعلیم کے لیے بہت سرگرم ہیں۔ انہوں نے اور ان کے دوستوں نے ان کا نام یونیسکو اور ورکے فاؤنڈیشن کے تحت ’گلوبل ٹیچر پرائز 2020‘ کے لیے منتخب کیا تھا، جہاں دنیا بھر سے 12 ہزار اساتذہ شامل تھے۔ یہ تمام اساتذہ بالعموم ترقی پذیر ممالک میں اپنے مسائل کے باوجود تعلیمی مشن سے وابستہ ہیں اور معاشرے کی خدمت کررہے ہیں۔
ان میں کینیا کا ایک استاد بھی تھا جو اپنی ہی تنخواہ سے 80 فیصد رقم غریبوں اور طلبا پر خرچ کررہا تھا جب کہ رنجیت لڑکیوں کی تعلیم میں غیر معمولی دلچسپی لیتے ہیں اور وہاں کے قبائلی سماج کو بچیوں کی تعلیم کی ترغیب بھی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ رنجیت نے اس گاؤں کے لوگوں کی زبان سیکھی اور درسی کتب پر کیو آر کوڈ لگائے جو فون سے رابطے پر مقامی زبان میں لیکچر، ویڈیو اور معلومات نشر کرتے ہیں ۔ اس طرح انہوں نے کیو آر کوڈ سے اسکولوں میں حاضری کا طریقہ بھی بنایا جو اب پورے بھارت میں استعمال ہورہا ہے۔
انہیں یہ ایوارڈ ایک مجازی تقریب میں دیا گیا جو لندن کے مشہور نیچرل ہسٹری میوزیم میں منعقد ہوئی تھی۔ تاہم انہوں نے دس لاکھ ڈالر میں سے پانچ لاکھ ڈالر قبول کیے اور نو سیمی فائنل اساتذہ میں باقی پانچ لاکھ ڈالر برابر برابر تقسیم کردیے، یوں ہر ایک کے حصے میں 55 ہزار ڈالر کی رقم آئی۔ ان میں ملائیشیا، برازیل، امریکا، برطانیہ، ویت نام، نائیجیریا، جنوبی افریقا، جنوبی کوریا اور اٹلی کے اساتذہ شامل تھے۔