بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے: تذکرہ ایک ناول کا
اس کے ابتدائی چند صفحات، بالخصوص پیش لفظ کو پڑھا، تو مجھے اس میں، اس کے اسلوب کے لحاظ سے ایک کشش اور انفرادیت نظر آئی۔
یہ خیالات ہیں ممتاز محقق، مدرس اور نقاد، ڈاکٹر معین الدین عقیل کے، جن کا اظہار انھوں نے آمنہ رضا عباسی کے ناول بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے کی بابت کیا۔ یہ الفاظ ناول کو سند عطا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ناول کے اسلوب کو بالخصوص سراہتے ہیں۔
یہ ناول کس کی کہانی ہے؟ اس کے لیے ہمیں مصنفہ کا پیش لفظ پڑھنا ہوگا، جو لکھتی ہیں: اس ناول کے پہلے باب میں، اپنے اردگرد کاغذات اور خطوط کا ڈھیر بکھرائے جس لڑکی سے آپ ملیں گے، وہ میں ہی ہوں۔ یہ ناول میرے شوق کا طواف ہے، جو تاریخ، شعر و شاعری، فلسفہ، افسانہ اور خاندان کے گرد گھومتا ہے۔
مگر صاحب اس کہانی کا ایک پس منظر اور بھی ہے، مگر اس سے پہلے ہم دوبارہ معین الدین عقیل کی سمت جاتے ہیں، جو اس فکشنی دنیا کے بارے مین فرماتے ہیں:
پڑھتے ہوئے جس چیز نے مجھے محو کیے رکھا، وہ اس کے کرداروں سے مصنفہ کی نسبت اور پھر ان کے خاندان کے تاریخی پس منظر سے اس کی کہانی یا واقعات کا ربط و تعلق تھا، جس نے اسے ایک طرح سے آپ بیتی ہی بنادیا ہے۔ کبھی اس انداز کے، یونہی خطوط کے سہارے یا ڈائری کی بنیاد پر ، کہانی کو پیش کرنے کا ایک چلن ہمارے فکشن میں مقبول و پسندیدہ رہا ہے، جسے مصنفہ نے اختیار کیا ہے اور جو اس ناولٹ میں پرکشش اور دل کش بھی رہا ہے۔
آمنہ رضا عباسی اپنے پیش لفظ میں لکھتی ہیں، خاندانی کاغذات کی تحقیق میں مجھے اپنے پردادا شاہ محمد شبلی عباسی کے زندگی کے اوراق ملے، جو میرے خیال میں صفحہِ قرطاس پہ لانا ضروری تھے، شبلی صاحب کو اپنا وطن ایک بار نہیں دو بار چھوڑنا پڑا اور یہی غریب الوطنی کی داستان ہے، جو اس ناول کے کرداروں کی زندگی کا عنوان ہے۔
۱۸۳ صفحات کی اس کتاب کی قیمت ۵۰۰ روپے ہے۔ اسے فضلی سنز نے متاثر کن گیٹ اپ کے ساتھ شایع کیا ہے۔