نواز برطانیہ ڈاکٹر امریکا میں، کیا زبانی علاج کیا جارہا ہے، عدالت عالیہ
اسلام آباد: عدالت عالیہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ نواز شریف برطانیہ اور ڈاکٹر امریکا میں ہیں، کیا زبانی علاج کیا جارہا ہے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔
نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے کہا کہ عدالت کے سرنڈر کرنے کے گزشتہ حکم پر نواز شریف نے عمل نہیں کیا، توشہ خانہ ریفرنس میں اشتہاری ہونے کے بعد نواز شریف کو کوئی ریلیف نہیں مل سکتا۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ایک اور مقدمے میں جو اشتہاری قرار دیا جاچکا ہو، اس کی ہمارے سامنے درخواست پر کیا اثر ہوگا اور قانونی حیثیت کیا ہوگی، پرویز مشرف کیس میں عدالت قرار دے چکی مفرور کو سرنڈر سے قبل نہیں سنا جاسکتا، نسیم الرحمان کیس میں سپریم کورٹ بھی مفرور کو ریلیف کے لیے غیر حق دار قرار دے چکی۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سماعت پر نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر نمائندہ بھی مقرر کرنا ہے تو کیوں نا آپ کو ہی مقرر کردیا جائے، نواز شریف کو مفرور قرار دینے کے حوالے سے ہم قانونی کارروائی آگے بڑھاتے ہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ اپنی معلومات کے مطابق بتائیں کہ کیا نواز شریف ہسپتال میں داخل ہیں؟۔ اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ نواز شریف کسی ہسپتال میں زیر علاج نہیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف برطانیہ اور ڈاکٹر امریکا میں ہیں، کیا زبانی علاج کیا جارہا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی ہسپتال میں داخل ہو تو پھر بات الگ ہوتی ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ آپ میری درخواست تو پہلے سن لیں، میں چاہتا ہوں کہ اپیل سن لیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اس کے لیے ہم پہلے مفرور ڈیکلیئر کریں گے اور پھر اپیل سنیں گے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نواز شریف کی عدم حاضری پر وفاقی حکومت کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس نامکمل ہیں، پنجاب حکومت ان کی ضمانت مسترد کرچکی۔
عدالت نے پوچھا کہ نومبر کے بعد کیا حکومت نے نواز شریف کی صحت سے متعلق جاننے کی کوشش کی؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے جواب دیا کہ ہم نے معلوم نہیں کیا کیونکہ وہ ہسپتال میں داخل ہی نہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ انڈر ٹیکنگ میں واضح لکھا ہے کہ ہائی کمیشن کے نمائندے کے ذریعے صحت کا جائزہ لیا جائے گا۔ جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس متعلق کبھی کوئی کوشش نہیں کی؟۔
عدالت نے نوازشریف کو العزیزیہ ریفرنس میں مفرور قرار دینے سے پہلے قانونی نکات پر معاونت لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے 15 ستمبر کو دلائل طلب کرلیے کہ سرنڈر کیے بغیر نواز شریف کو ریلیف ملے گا یا نہیں۔
عدالت نے ہدایت کی کہ نواز شریف نے سرنڈر نہیں کیا ہم انہیں کوئی استثنیٰ نہیں دے رہے، صرف قانونی نکات پر دلائل کے لیے خواجہ حارث کو وقت دے رہے ہیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ وقت دیا جائے اگر کوئی قانونی نکات پر معاونت نہ کرسکا تو سرنڈر پر نظرثانی کی درخواست واپس لے لوں گا۔ مقدمے کی سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔