میرے قائد کا گھر وزیر مینشن

عائشہ احمد

جولائی کا آغاز ہوتے ہی پورے ملک میں مون سون بارشوں کے سلسلے کا آغاز ہو گیا ہے اور پورے ملک میں سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کر رہی ہیں ۔ حکمرانوں کی طرف سے ہر بار کی طرح کا وہی شکوہ کہ ہمیں وسائل کی قلت کا سامنا ہے ۔ جہاں ہر طرف یہی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے خبروں میں قاٸد اعظم کی جائے پیدائش وزیر مینشن کے باہر کے حالات دکھاۓ گۓ جہاں گھٹنوں تک پانی جمع تھا تو ایک دم مجھے کچھ عرصہ قبل وزیر مینشن کا وزٹ یاد آ گیا۔

کچھ عرصہ قبل ناچیز کا قائد اعظم کی جائے پیداٸش وزیر مینشن جانا ہوا۔ جیسے ہی ہم وہاں پہنچے تو ابلے ہوۓ گٹر اور کچرے کے ڈھیر نے ہمارا استقبال کیا جب ہم اندر داخل ہوئے تو ہمارے بیگ لے لیے گئے اور موبائل بند کروا دیے گئے کہ آپ کو تصاویر لینے کی اجازت نہیں۔ سب سے پہلے ہمیں لاٸبریری دکھائی گئی جہاں الماریوں میں کتابیں موجود تھیں مگر الماریوں پر تالے لگے ہوۓ تھے پوچھنے پر بتایا گیا کہ سیکیورٹی کے مساٸل کی وجہ سے اسے بند کر دیا گیا ہے۔

اداس دل کے ساتھ ہم پہلی منزل کی جانب بڑھے سیڑیوں کی حالت دیکھ کر دل بہت پریشان ہوا کہ جب بانی پاکستان کے گھر کی یہ حالت ہے تو ہم تو پھر کسی کھاتے میں نہیں آتے ۔ سیڑھیاں چڑھ کر ہم قاٸد اعظم کے دو کمروں پر مشتمل گھر میں پہنچے لال رنگ کا قالین بیچ میں لمباٸ میں بچھایا گیا تھا جو شخص ہمیں وزٹ کروا رہا تھا اس نے کہا کہ میڈم آپ نے اسی قالین پر چلنا ہے ۔ سب سے پہلے ہمیں اس کمرے میں لے جایا گیا جہاں وہ بیڈ موجود تھا جس پر میرے قائد کے جسد خاکی کو وفات کے بعد رکھا گیا تھا وہاں پاس ہی وہ کرسی بھی موجود تھی جس پر قائد تشریف فرما ہوتے۔

پھر ہمیں اسی کے ساتھ موجود دوسرے کمرے میں لایا گیا جہاں باباۓ قوم کی کتابیں موجود تھیں اور وہ بھی تالے لگی الماریوں میں بند تھیں آگے بڑھے اور اس جگہ پہنچے جہاں کچن اور واش روم ہوتا تھا جسے اب ختم کر کے ایک کمرے کی شکل دے دی گئی ہے وہاں قائد کے زیر استعمال فرنیچر اور وہ کرسی موجود تھی جس پر تشریف فرما ہو کر قائد نے آل انڈیا مسلم لیگ کی تمام میٹنگز میں شرکت کی ۔

پھر ہم دوسری منزل کی جانب بڑھے جہاں ایک چھوٹا سا میو زیم بنایا گیا وہاں قائد اعظم کے زیر استعمال کپڑے، چیزیں اور جوتے موجود ہیں۔ ایک پورا کارنر ان کی اہلیہ رتی جناح (مر یم جناح) کے زیر استعمال فرنیچر سے سیٹ کیا گیا ہے ۔ بوجھل اور افسردہ دل کے ساتھ یہ سب مناظر دیکھتے ہوئے ان حضرت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے اجازت لی اپنا بیگ اٹھایا اور باہر نکل کر سوچا کہ ہمیں ایک آزاد ملک، آزاد سوچ دینے والے لیڈر کا گھر اس حال میں ہے کیا یہ ہم سب کے لۓ لمحہ فکریہ نہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔