یہ غازی ، یہ محسن ، یہ ہر لمحہ تیار بندے

ثنا خان ندیم

ایک وہم ! ایک خوف ! پر سامنے اک ذمہ داری۔۔۔ وبإ کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں ، رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ افراتفری ، غلط معلومات ، انجانا خوف ، یہ اس واٸرس کے پھیلنے سے زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس پر کنٹرول شاید رہا نہیں کسی کو ، پر ڈاکٹر ہونے کے ناطے اس کو اپنا عہد مقدم لگا۔ اپنے دو چھوٹے بچے شوہر کے حوالے کر کے وہ دن رات اسپتال کےلٸے وقف کر چکی ہے۔ اگر وہ ایک دوست نا ہوتی ، اور اگر میں خود بھی ساٸیکالوجسٹ نا ہوتی ، تو مجھے علم کبھی نا ہوتا کہ ڈاکٹر طبقہ کس دلجوعی سے کام کو بانٹ کر اس قوم کو بچانے میں لگا ہوا ہے۔ یہ وبإ نا پوچھ کر آتی ہے اور نا ہی بتا کر لے جاتی ہے۔ پر آپ ، میں ، ہم سب اپنے گھروں کے آرام و سکون ، گھر والوں کے درمیان ، اس لاک ڈاٶن کے دن گزار رہے ہیں ۔ اس پہ بھی ہزاروں افراد اس کو ”قید“ سے تشبیح دے رہے ہیں ۔ پر ”قید“ بمع مشقت کیا ہوتی ہے کوٸی ان ڈاکٹرز اور ان کے ساتھ اسپتالوں میں ڈیوٹی سر انجام دینے والے پیرامیڈیکل اسٹاف سے پوچھے۔ جہاں گھر سے بات کرنے کے لٸے بھی وقت نہیں ملتا۔ بچے ، ماں باپ ، قریب رہتے ہوٸے بھی میلوںچ دور لگتے ہیں ۔ کھانا کھایا نہیں کھایا ، نا کوٸی پوچھنے والا نا تلقین کرنے والا ۔ افراتفری میں کسی کو یاد ہے تو بس یہی کہ آنے والے مریض کی جان بچ سکے۔ پھر بھی ان کو سننے کو ملتا ہے کہ ” ہمارے ڈاکٹرز خود غرض ہیں ، چاٸینہ میں تو ایسا نہیں سنا “۔ بات منہ سے نکلتے ہی ہوا ہو جاتی ہے پر دماغ لگا کر بات کرنے پہ وقت اور قوت دونوں درکار ہوتے ہیں ۔ کوٸی یہ بھی تو بتاٸے ان عقل کے پیدل لوگوں کو کہ وہاں حکومت کی طرف سے وساٸل اور سہولیات بھی کتنی میسر ہیں ۔ وہاں کے کسی ڈاکٹر کو اس مہلک واٸرس سے مرتے نہیں سنا ۔ میں یہاں ذکر اس باہمت اور فرض شناس ڈاکٹر کا ضرور کرنا چاہوں گی جس نے سہولیات کے فقدان کے باوجود اپنی ڈیوٹی دی اور ایسے دی کہ خود بھی اسی واٸرس کے شکار سے شہید ہو گیا۔ ڈاکٹر اسامہ ریاض ، گلگت بلتستان کا سپوت !!

یہاں ذکر ان بہادر فورسسز کا جو لاک ڈاٶن کے حکم کی پیروی بنإ کسی شرط کے کٸے جا رہے ہیں ۔ ان میں ہماری پولیس ، ہر صوبے میں تعینات ، ہمارے رینجرز کے نڈر جواں ، اور ہماری پاک فوج کے عزم رسیرہ جواں ۔ سڑک کنارے ، گلیوں میں گشت کرتے ، عوام کے مزاق و طنز کا نشانہ بنتے ، اپنے گھر کے آرام و سکوں سے بے نیاز ، کیا یہ ہماری تھوڑی سی حوصلہ افزاٸی اور تعریف کے مستحق نہیں ؟ کرونا جیسی وبإ کے شکار یہ بھی ہوتے ہیں ، ہو سکتے ہیں ، پر فرض کے سامنے خوف کہیں چھپ سا جاتا ہے ۔ پھر چاہے وبإ ہو ، بدامنی ہو ، جنگ ہو یا اندرونی حالات کی نزاکت !!
امن میں ہم انکے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔ اور مشکل حالات میں انکی ہی طرف دیکھتے ہیں ۔ ان تمام فورسسز کو بھی ”سلام“ ۔

حالات خراب ہر جگہ ہیں ۔ اس واٸرس کے پنجے دنیا پر پڑ چکے ہیں ۔ اور ہر ملک اپنے اپنے وساٸل کے تحت اس وبإ سے لڑ رہا ہے۔ پر جس انداز سے ہمارے ڈاکٹرز ، پیڑامیڑیکل اسٹاف ، ہماری فورسسز ، کم وساٸل اور کم ترقی یافتہ ممالک کے فہرست میں شامل ہونے کے باوجود ، بلا خوف و خطر اس ملک کی عوام کے لٸے حاضر ہیں ۔ ان کو تنقید یا اعتراض کی نگاہ سے دیکھنے کی بجاٸے ہم اپنے حصے کا ”شکریہ“ تو ادا کر ہی سکتے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم اصل مدعے یعنی ”کرونا کے خلاف یکجہتی “ سے ہٹ کر ایک الگ ہی بحث میں وقت ضاٸع کٸے جا رہے ہیں ۔ ہمیں موازنے کے ماحول سے نکل کر اپنی مدد آپ کے تحت اپنا فرض ادا کرنا ہو گا۔ اگر ہم وبإ کے خلاف یہ جنگ جیت نہیں سکتے ، تو وبإ کو بھی جیتنے نہیں دینا۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔