ہمارا نصاب ہماری ناکامی

غفران احمد

آج کے اِس دور میں اِس پُر فتن دور میں تعلیم کا ہونا بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ آج کی اِس نوجوان نسل خواہ وہ کسی بھی قوم، رنگ، نسل مذہب یا لڑکی ہو یا لڑکا کسی بھی جنس سے تعلّق رکھتا ہو اُس میں تعلیم کا شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی تباہ کاریاں ہماری لاعلمی، نادانی اور کم عقلی کا واضح منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اِسی تباہی کی ایک قسم کا نام ہمارے نصاب کی ناکامی ہے جو اِس ترقی یافتہ اور ٹیکنالوجی سے بھرپور دور میں رہنے کے باوجود بھی ناکامی کا باعث بن رہی ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا جس طرح ترقی کررہی ہے برعکس اِس کے ہم مزید ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہوتے جارہے ہیں ۔

ہمارے نصاب کی سب سے بڑی ناکامی دینِ اسلام کا شعور نہ بیدار کرنے کی وجہ ہے جو بسا اوقات اِس وطنِ عزیز کا پڑھا لکھا طبقہ احمقانہ اور کم عقلی کی بنیاد پر عوام الناس کے سامنے بے بنیاد باتیں کرکے اپنا رعب جما لیتا ہے ۔ درحقیقت اِن سب کی حقیقی وجہ نصاب میں دین سے دوری ہے ۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے زندگی کی ابتدا سے لیکر اب تک معاشرے میں فقط طرح طرح کے خرافات کو فروغ ہوتا دیکھا ہے جس کی وجہ نصاب میں موجود مغربی ماڈرنائزیشن کی تعلیم کو اجاگر کرنا مقصود ہوتا ہے جو ہمارے دل و دماغ میں منفی سوچ اُبھار کر ناکامیوں کی طرف دھکیل رہا ہے، بظاہر تو یہ عمل لوگوں میں خاصا پسندیدہ اور اہمیت کا حامل ہے وہیں اِس طرزِ عمل نے کئی طلبہ کے مستقبل کے ساتھ بڑا گھناؤنا کھیل کھیلا ہے ۔ آج کا نوجوان مشرقی روایات و طور طریقوں کو بھول کر مغربی سوچ کا عکاس بن گیا ہے جس کی ایک اور وجہ مادری زبان کو فضول و بیکار ثابت کرکے فقط مغربی زبان کو فروغ دینے کیلئے دن رات جدوجہد کررہے ہیں ۔ یہی جدوجہد اگر ہم اپنے کلچر، روایات و طور طریقوں کو فروغ دینے میں کرتے تو بلا شک و شبہ آج ہم دنیا کے سامنے رسوا نہ ہوتے ۔ اگر ہم اپنے نصاب اور تعلیم کو بہترین بنانے کیلئے دوسری قوموں سے سبق حاصل کرکے توجہ دیتے تو آج ہمارا نوجوان تعلیم کے زیور سے یوں محروم نہ ہورہا ہوتا ۔

ہمارے نصاب کی ناکامیوں کا بڑھتا ہوا رجحان ہمارے صدیوں پرانا جو نصاب چلتا آرہا ہے وہ ہی ابھی تک برقرار ہے ۔ یہ کائنات ترقی کی دوڑ میں کہاں سے کہاں نکل گئی ہے لیکن ہم آج تک وہ چیزیں پڑھ رہیں ہیں جنکا موجودہ دور سے کوئی لین دین نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بہت کم طالبِ علم ہیں جو ترقی کرپاتے ہیں ۔

ہمارے نصاب، اور ہماری ناکامیوں کی بےانتہا وجوہات ہیں کہ اگر قلم چلانے لگوں تو پچھلے 70 سالوں کی ناکامیاں ایک کتاب کی شکل اختیار کرنے لگ جاۓ ۔ اگر قلم چلانے لگوں تو کیا پتہ میری زندگی ختم ہوجاۓ گی منفی سوچ اور ناکامیوں کو لکھتے لکھتے اور کسی کتاب میں قلمبند ہوکر رہ جائیں گی ۔ لیکن یہ تمام خامیاں اُس صورت تک اختتام نہ ہونگی جب تک تعلیم و نصاب میں بہتری نہیں آئیگی ۔

ہم اِس طرزِ عمل کو اپنا کر خود کو دنیا سے مشابھت دیتے ہیں ۔ اور ہمارے چال چلن اور حوس کا معیار خود کو ترقی یافتہ دِکھانا مقصد ہوتا ہے ۔ اِن سب چیزوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہمارے نظام کو تعلیم کو بہتر بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا ۔ سب چیزیں ایک طرف رکھ کر صرف شعبہ تعلیم کو مدِنظر رکھتے ہوئے ترقی کی منازل طے کریں اور نصاب میں بہتری لیکر آئیں ۔ پھر وہ وقت دور نہیں کہ جب اِسی ملک سے بہترین سائنسدان، ڈاکٹر اور مزید پڑھا لکھا طبقہ منظر عام پر ہوگا ۔ اور تبدیلی و ترقی بھی شعبہ تعلیم کو بہتر کرنے سے ملے گی ۔

غفران احمد

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔