کورونا ریلیف ٹائیگر فورس

وجیہہ اکرم

کورونا نے دنیا کے طاقتور ترین ممالک کو پریشان کردیا ہے، کورونا کی وجہ سے جہاں دنیا بھر میں معیشت کو نقصان پہنچا ہے وہیں پاکستان پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ پاکستان کی معیشت ویسے ہی کمزور تھی، پچھلے دو سالوں میں حکومت اپنی حکمتِ عملی کی بدولت معیشت کو بہتری کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہی تھی کہ ان مشکل حالات میں کورونا کی صورت میں ایک اور امتحان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جہاں دنیا بھر میں کورونا کی وجہ سے غریب طبقہ پریشان ہے وہیں پاکستان میں بھی کم آمدنی یا روزانہ کمانے اور کھانے والے حضرات بہت پریشان ہیں۔

اسی پریشانی کا احساس کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ حکومت پوری حکمتِ عملی کے ساتھ میدان میں اتڑے گی اور اُس طبقے کی مدد کرے گی جو ان حالات میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم خان صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارا مقابلہ صرف کورونا سے نہیں بلکہ غربت اور افلاس سے بھی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے ان حالات میں اپنے ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے کورونا ریلیف ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کردیا ہے۔
ریلیف فورس کو لے کر میڈیا میں غلط فہمی پائی جاتی ہے، اکثر صحافی اور اینکر حضرات اُن مشکلات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے جو حکومتِ پاکستان کو درکار ہیں۔ کورونا کس تیزی سے پھیلے گا اس کا اندازہ کسی کو نہیں، بڑے بڑے ممالک بھی اس میں فیل ہوگئے، امریکا جیسا ملک بھی اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے۔
چونکہ پاکستان کے پاس وسائل کی کمی ہے اور یہ وائرس کتنی شدت سے پھیلے گا اس کا کسی کو علم نہیں، اس صورتِ حال میں منصوبہ بندی کرنا، لاک ڈاوُن کی صورت میں گڑتی معیشت کو سنبھالنا، بڑھتی بے روزگاری پر قابو پانا اور حکومتی امداد کو ضرورت مند و مستحق تک پہنچاناایک مشکل کام ہے۔ ان سب مشکلات کے باوجود بھی حکومتِ پاکستان کے حوصلے بلند ہیں۔
اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ یہ ریلیف فورس نوجوانوں اور رضاکاروں پر مشتمل ہوگی، چونکہ یہ وفاق کا منصوبہ ہے اس لیے پورے ملک سے کوئی بھی شخص کسی بھی پارٹی سے ہو وہ اس فورس کا حصہ بن کر قوم کی خدمت کر سکتا ہے۔
اس فورس کا اہم مقصد یہ ہے کہ عام پاکستانی کو اُس بحران سے آگاہ کیا جائے جو کورونا کی صورت میں ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ رضاکاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کورونا کے متعلق تمام احتیاطی تدابیر سے عام عوام کو مکمل طور پر آگاہی دیں۔
والینٹئرز پاکستان کے دور دراز علاقوں اور دیہاتوں میں جا کر اُن کے گھر تک راشن، ادویات، طبی سہولیات اور دیگر ضروریات کی اشیا پہنچائیں گے۔
مشکل کی اس گھڑی میں ہم نے متحد ہوکر اس بحران کا مقابلہ کرنا ہے۔ یاد رہے قومیں وہی سرخرو ہوتی ہیں جو مشکل حالات کا ڈٹ کر بہادری سے مقابلہ کرتی ہیں۔ پاکستانی تو ویسے بھی مشکل گھڑی میں ہمہ وقت اپنی جان، مال، وقت سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
آئیں ہم سب اپنی اپنی سیاسی وابسطگیوں کو پسِ پردہ ڈال کر مل کر اس بحران کا سامنا کریں اور حکومت کا ساتھ دے کر اس کے ہاتھ مضبوط کریں۔ یاد رہے ملک ہے تو ہم ہیں، اسی ملکِ پاکستان سے ہماری آن، شان اور بان ہے اور اسی سے دنیا میں ہماری پہچان ہے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔