وباؤں پر لکھا ادب کلاسیک کا حصہ ہے، کورونا کے بھی ادب پر اثرات پڑیں گے: آمنہ مفتی

سوشل میڈیا کے اس پرشور اور اضطرابی دور میں جن فکشن نگار نے اپنی موجودی کا احساس دلایا، آمنہ مفتی ان میں نمایاں۔ ان کے ہاں فقط موضوع نہیں، بیانیہ کی تشکیل میں بھی ایک خاص نوع کی جرات دکھائی دیتی ہے۔ زبان پرقوت اور خیال کی ندرت قاری کو نئی دنیا میں لے جاتی ہے۔
فکشن سے زندگی کی سمت آتے ہیں۔ اردگرد نظر ڈالیں۔ صورت حال کچھ یوں ہے کہ کورونا بحران نے ہمارے جینے کا ڈھب ہی بدل دیا۔ اور یہ ممکن ہی نہیں کہ زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کرنے والی اس بیماری نے ادب اور ادیبوں کو متاثر نہ کیا ہوا، اسی نکتے کو پیش نظر رکھتے ہوئے وائس آف سندھ کے تحت مختصر مکالموں کا یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ محترمہ آمنہ مفتی سے بھی اسی سلسلے میں گفتگو ہوئی۔
آمنہ مفتی کا شمار اردو کے نمایاں ڈراما نویس اور فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ کالمز بھی ان کا ایک اہم حوالہ۔ جہاں ان کے ناولز ‘جرات رندانہ’، ‘آخری زمانہ’، اور ‘پانی مر رہا ہے’ نے قارئین کو گرویدہ بنایا، وہیں؛ الو برائے فروخت نہیں، گھگھی (امرتا پریتم کے ناول پنجر کی ڈرامائی تشکیل)، اضطراب، جہیز، سبز پری لال کبوتر جیسے ڈراموں نے لاکھوں ناظرین کے ذہنوں پر ان مٹ نقوش چھوڑے۔
وہ ‘خیمے میں مت جھانکیں’ کے زیر عنوان لندن فلم فیسٹیول کے لیے ایک فلم لکھ چکی ہیں۔ اسٹیج کے لیے بھی لکھا۔ صحافت میں ماسٹرز کرنے والی آمنہ مفتی شعبہ تدریس سے بھی وابستہ ہیں۔ فلم اور اسکرپٹ رائٹنگ ان کے مضامین۔
اعزازات بھی کئی اپنے نام کیے۔ 2014 میں وہ لکس ایوارڈ برائے اسکرین رائٹنگ اور 2015 ساحر ایوارڈ کی حق دار ٹھہریں۔ ‘پانی مر رہا ہے’ کو 2019 میں گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔
الغرض وہ ایک رول ماڈل ہیں۔ بااختیار پاکستانی عورت کی قابل تقلید مثال۔ آئیں، اس باکمال فکشن نگار سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔

سوال: کورونا وائرس نے ہماری زندگیاں یکسر تبدیل کر دیں، کیا اس کے اثرات اردو ادب پر بھی ظاہر ہوں گے؟
جواب: جی اقبال، چوں کہ متعدی بیماری سماج کے رائج الوقت طریقوں کو متاثر کرتی ہے اور ادب، سماج سے بھی پیوستہ ہے، تو یہ اثرات ادب پر بھی پڑیں گے اور پڑ رہے ہیں۔
فی الوقت تو لوگ دانستہ اسے تحریر کا موضوع بنا رہے ہیں، لیکن جیسا کہ ادب کا قاعدہ ہے، آنے والے دور کے لکھاریوں کو بھی یہ دور بہت متاثر کرے گا۔ آپ سن سنتالیس کے بعد کے ادب کو اٹھا کر دیکھ لیجیے، آج تک ہم اس کے اثرات سے آزاد نہیں ہو سکے۔ پچھلی وباؤں پہ بھی جو کچھ لکھا گیا، اس میں سے کچھ تو باقاعدہ کلاسیک کا حصہ ہے۔ میں عالمی ادب کی تناظر میں کہہ رہی ہوں۔ دوسرا اثر یہ کہ اس بیماری نے چند ایسے لوگوں کو بھی اٹھا لیا، جنھوں نے ابھی کام کرنا تھا۔ یوں ادب میں ایک خلا بھی پیدا ہو گا۔ اب جانے وہ کیسے پر ہو گا؟

سوال: آپ نے اپنے پرقوت فکشن میں ان ہونی دنیاؤں کو منظر کیا، کیا آپ کورونا سے تبدیل ہونے والی دنیا پر بھی کچھ لکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں؟

جواب: فی الحال تو نہیں۔ "پانی مر رہا ہے” لکھتے ہوئے کسی انہونی کا خوف تھا شاید۔ اب وہ ہونی بن کر سامنے آئی ہے۔ ارادے سے تو کچھ نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کوئی کہانی خود ہی راہ روک کر کھڑی ہو گئی، تو لکھنا پڑے گی۔

سوال: لاک ڈاؤن اور آئی سولیشن کے دوران آپ نے کون کون سی کتب پڑھیں؟
جواب: کتابیں تو کافی پڑھیں، مگر کچھ کتابیں دوبارہ بھی پڑھیں جیسے، "غبار خاطر "، "آخر شب کے ہم سفر” ،” حرف شوق” ،” ہزار داستان” ۔ اس کے علاوہ ” چک پیراں کا جسا”،” پوکی مان کی دنیا”،” کرک ناتھ”، "گرگ شب”، ” سنفنگ آوٹ دی مون "،” سنو” ،” سا سا” اور سبز بستیوں کے غزال”۔

سوال: نئے قارئین کو آپ کیا پڑھنے کا مشورہ دیں گی؟
جواب: ہر قاری کی پسند اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتی کہ کسی کو کوئی بھی مشورہ دوں، لیکن ذوق کی پرورش کے لئے کلاسیک پڑھنی چاہیے۔ یوں تو میں ذوق کو بھی کچھ خاص نہیں مانتی۔ ہر شخص کا اپنا ذوق ہوتا ہے اور اس کا احترام کرنا چاہیے۔ میں تو ” بھوت ” اور ” خوفناک” ڈائجسٹ تک پڑھتی ہوں، اگر میسر آجائے تو۔ کہانی پڑھنے کا لپکا برا ہے۔ انسان کٹنی سا بن جاتا ہے، جہاں سے ملے بس کہانی ملے، چاہے کن سوئیاں لینی پڑیں۔

سوال: ہر تخلیق کار کے لکھنے کا ڈھب اس کی تخلیقیت کا حصہ ہوتا ہے، آپ کیسے لکھتی ہیں، لیپ ٹاپ پر، یا اب تک کاغذ سے دوستی ہے، دن میں لکھتی ہیں، یا شام ڈھلے؟
جواب: یہ صورت حال ہماری نسل کے لوگوں کے لئے بڑی پیچیدہ ہے۔ میں نے اس دور میں لکھنا سیکھا، جب تختی اور سرکنڈے کا قلم غائب ہو چکا تھا۔ مجھ سے پہلے لکھنے والوں کا خط بہت خوش نما تھا۔ میں بال پوائنٹ سے لکھتی تھی اور ہر مدیر کو میرے لکھے سے زیادہ میری بدخطی سے شکایت ہوتی تھی۔
اس قدر مشق کی کہ آخر خوش خط ہو گئی، مگر فائدہ؟ اب ہر جگہ کمپوزڈ تحریر چاہیے۔ یوں بھی کمپوزرز کے ہتھے چڑھنے سے بہتر ہے کہ خود کمپوز کر لیا جائے۔
صورت حال یہ ہے کہ علی الصبح یا نصف شب کے قریب، پارکر کے پین میں پارکر ہی کی نیلی روشنائی یا ری فل لگا کر تنگ لکیری فل سکیپ پیپر کے ایک جانب لکھتی ہوں۔ اس کے بعد یہ مسودہ کمپوز بھی کرتی ہوں۔ دوہری مزدوری بھی ہماری نسل کے حصے میں آئی۔

سوال: پسندیدہ فکشن نگار کون ہے، کون سا شاعر پسند ہے؟ کس کتاب کو سرہانے رکھتی ہیں؟
جواب: فکشن نگار تو ہوتے ہی اچھے ہیں۔ سب ہی اچھے ہیں، کسی ایک کا کہوں گی تو جھوٹ ہوگا۔ شاعری کے بغیر نہ میرا دن چڑھا ہے نہ رات کھسکتی ہے۔ کلاسیک سے لے کر "مرشد” تک سب پڑھا ہے، بار بار پڑھتی ہوں ۔ ” ابن انشاء ” کی شاعری میں کچھ ایسا ہے کہ ذرا زیادہ کھینچتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں شعر کی روایت بہت مضبوط ہے اور روز افزوں ہے۔
سرہانے رکھی کتاب بدلتی رہتی ہے۔ آج کل میرے خاندان کی کچھ بزرگ خواتین کے خطوط اور ڈائریاں ہیں میرے سرہانے۔ قصے کہانیاں اور زبان کی چاشنی جیسی ان میں ہے، عصر حاضر کی فکشن میں بھی کہاں؟

سوال: کوئی پسندیدہ فلم، ہدایت کار، اداکار؟
جواب: فلم کا بھی یہ ہے کہ آج کل "پیراسائیٹ” حواس پہ سوار ہے، کل کوئی اور ہو گی۔ مگر فلم دیکھنے کا بہت شوق ہے۔ چوں کہ فلم اسکرپٹ پڑھاتی بھی ہوں، تو ہر نئی فلم نہ صرف دیکھتی ہوں بلکہ اس کا اسکرپٹ کسی نہ کسی صورت طلبا کے سامنے بیان بھی کرتی ہوں۔
پسندیدہ ہدائت کار، ستیہ جیت رے۔ ممکن ہے کل کوئی اور ہو۔ اداکار، امیتابھ بچن اور وہ بھی اس وقت تک، جب تک ” سلسلہ ” جیسی کوئی اور فلم اور ” امت ملہوترا” جیسا کوئی اور کردار نہ آ جائے۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔