لاک ڈاوُن اور سندھ پولیس کا کردار

چوہدری اُسامہ سعید

کورونا وائرس نے ابتداء میں جب چین کے باسیوں کو اپنا شکار بنایا تو وہاں کے لوگوں نے اسے زیادہ سنجیدہ نہیں لیا۔ چین چونکہ صحت کے معاملے میں بہترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے اور اس طرح کی جان لیوا وبا پہلے لوگوں نے دیکھی نہیں تھی تو لوگ سمجھیں اس کا علاج بھی آسانی سے ممکن ہے لیکن جوں جوں مریضوں اور اموات کی تعداد بڑھتی رہی ویسے ویسے لوگوں کو اس خطرناک بیماری کے متعلق سمجھ آنے لگا۔

چین نے مکمل لاک ڈاوُن کیا، گھر تک خود کو محدود کردیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چین میں اب ایک بھی نیا کیس فائل نہیں ہو رہا۔ چین سے ہوتا ہوا یہ وائرس جب ایران، اٹلی، اسپین، امریکا، ترکی، پاکستان اور بھارت سمیت کئی ملکوں میں پہنچا تو اٹلی اور اسپین نے اسے سنجیدہ نہیں لیا جس کی وجہ سے وہاں کئی اموات ہوگئیں۔ اب اٹلی، اسپین ، بھارت سمیت کئی ملکوں میں مکمل لاک ڈاوُن کی صورتِ حال ہے۔

پاکستان میں سندھ حکومت نے سب سے پہلے خطرے کی گھنٹی کو محسوس کرلیا اور ایک، دو کیسز رپورٹ ہونے پر ہی تعلیمی ادارے بند کروا دیے، جس کی وجہ سے سندھ حکومت کو بڑی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ جیسے جیسے کیس بڑھتے رہے سندھ حکومت ویسے ویسے اقدامات تیز کرتی رہی۔

میڈیا اور سوشل میڈیا پر حکومت کی جانب سے کورونا کے حوالے سے آگاہی مہم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ابتدا میں جزوی لاک ڈاوُن اور پھر کُلی لاک ڈاوُن کے لیے ذہن سازی بھی کی گئی۔

ان سب کے باوجود بھی چند نام نہاد لبرل حضرات لاک ڈاوُن کے دوران سندھ پولیس کے خلاف سوشل میڈیا پر متحرک ہیں اور تاثر یہ دینا چاہتے ہیں کہ سندھ پولیس ظالم و سفاک ہے اور لاک ڈاوُن کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ جبکہ سندھ حکومت اور پولیس نے پہلے ہی لوگوں کو آگاہی مہم کے ذریعے احتیاطی تدابیر بتا دی تھیں اور گھر تک محدود رہنے کا اعلان بھی کردیا تھا۔

اکثر عوام نے اس بات کو سنجیدہ لیا، اپنے اور اپنے پیاروں کو کورونا سے بچانے کے لیے خود کو گھر تک محدود کردیا لیکن چند لوگ اسے کسی تفریح کا ذریعہ سمجھتے رہے اور سڑکوں پر بلاضرورت گھومتے پھرتے نظر آئے۔ لوگوں کی جان بچانا سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ کورونا کوئی انسانی حقوق نہیں دیکھتا، وہ بچہ، بوڑھا، جوان، مرد اور عورت بھی نہیں دیکھتا۔ وہ ایک سے دوسرے تک اور دوسرے سے تیسرے تک کب منتقل ہو جائے کوئی نہیں جانتا۔

چونکہ یہ سارے کام عوام کی اپنی بھلائی کے لیے ہیں اس لیے سندھ پولیس اسے اپنا فرض اور انسانی خدمت سمجھ کر کر رہی ہے۔ ہم جب یہاں گھر پر اپنے پیاروں کے ساتھ محفوظ ہیں تب سندھ پولیس باہر ہمارے لیے دن رات ڈیوٹی دے کر عوام کو کورونا سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یاد رہے اس بیماری کا واحد حل سوشل ڈسٹینسنگ ہے۔ دور رہنا ہے، ہاتھ نہیں ملانا، گلے نہیں لگنا اور خود کو گھر تک محدود رکھنا ہے۔ ہم سب مل کر ہی اس وبا کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ حکومت کا اور پولیس کا ساتھ دیں، اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے!

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔