عَائشہ بنتِ ابی بَکَررضی اللہ تعالیٰ عنہ

سُہیر عارف

اللہ کریم نے اپنے نبی (علیہ السلام) کی تمام بیویوں کا انتخاب خود کیا ہے لیکن سَیَّدہ عائشہ کا انتخاب بالکل مُختلف طریقے سے ہؤا، سیّدہ عائشہ کو نبی (علیہ السلام) کے خواب میں ٢ سے ٣ بار دکھایا گیا اور ہر بار جبرائیل (علیہ السلام) فرماتے کہ یہ آپ (علیہ السلام) کی زوجہ ہیں دُنیا اور آخرت میں.

سیّدہ عائشہ ایک فقیہ، ایک عالمہ اور ایک مُجتہِد بھی تھیں.
دینِ اسلام کا ١/٤ حصّہ سیّدہ سے ہم تک پہنچا ہے، سیّدہ کا شمار اُن ٨ اصحاب میں بھی ہوتا ہے جنہوں نے سب سے زیادہ احادیث روایت کی ہیں.

اصحابِ رسول (علیہ السلام) کہتے تھے جب ہمیں کسی مسئلے میں کوئی مشکل یا پریشانی پیش آتی تو ہم عائشہ کے پاس اُس کا حل پالیتے تھے.

اِس کے علاوہ سَیَّدہ طِب کے شُعبہ میں بھی مَہارت رکھتی تھیں، اور یہ عِلم اُن کو نبی (علیہ السلام) کے پاس جو حَکیم اور طِبّی ماہرین آتے تھے تو سَیّدہ اُن کے طریقوں کو معلوم کرتی تھیں.

سَیّدہ عائشہ کی شان میں قُرآنِ پاک کی مُتعدد آیات نازل ہوئیں، جن میں آیتِ تَیمُّم، آیتِ تطہیر، اور آیتِ برأت میں تو پورا ایک رکوع سَیَّدہ کی شان میں نازل ہؤا.

سَیّدہ عائشہ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ اُن کے والدین، دادا، دادی، بہن، بھائی، بہنوئی اور بھانجا سب صحابی ہیں، لیکن سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ آپ کے شُوہر اِمام الانبیاء صل اللہ علیہ والہ وسلم) ہیں).

سیّدہ عائشہ ہی وہ ہستی ہیں جن کے لیے پیغمبرِ اسلام (علیہ السلام) نے فرمایا کہ عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثَرید کی فضیلت تمام کھانوں پر ہے.

حضرت عائشہ نبی (علیہ السلام) کی واحد زوجہ ہیں جن کی موجودگی میں اُن کے بِستَرِ مُبارک پر رسولِ کریم (علیہ السلام) پر وحی نازل ہوتی تھی.

اصحابِ رسول (علیہ السلام) نبی (علیہ السلام) کو تَحائف اُس وقت بھیجتے جب اُن کی باری عائشہ کے گھر ہوتی، کیونکہ نبی علیہ السلام) عائشہ کے ساتھ زیادہ خوش رہتے تھے) .

ایک مرتبہ نبی (علیہ السلام) نے اپنی لَختِ جگر فاطمہ سے فرمایا کہ اے میری بیٹی میں عائشہ سے مُحبّت کرتا ہوں تُم بھی اِس سے مُحبّت کرو.

سَیّدہ نے ایک مرتبہ نبی (علیہ السلام) سے عورتوں کے جِہاد کے متعلق سوال پوچھا تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا عورتوں کا جِہاد حَج ہے، پھر سَیّدہ عائشہ نے اپنی وفات تک ایک سال بھی حَج نہیں چھوڑا اور حَج کے دوران اُنھوں نے سوائے نبی (علیہ السلام) کے ساتھ بعد میں کبھی حَجرِ اَسوَد کو بوسہ نہیں دیا اور اِس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ڈرتی تھیں کہ اُن کا پردہ خراب نہ ہوجائے.

اللہ کریم نے اپنے مَحبوب (علیہ السلام) کی تدفین کے لیے سیّدہ کے گھر کا اِنتخاب کیا اور نبی رحمت (علیہ السلام) دنیا سے اِس حالت میں رُخصَت ہوئے کہ اُن کا سَر مُبارک سَیّدہ کی گود میں تھا.

سَیَّدہ عائشہ اپنے زوج پیغمبرِ اسلام (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ٤٨ سال تک زندہ رہیں اور پوری زندگی دینِ اسلام کی تبلیغ کی اور لوگوں تک اللہ کریم اور اُس کے رسول (علیہ السلام) کا پیغام پہنچایا.

سَیّدہ عائشہ کی وفات ١٧ رمضان المبارک ٥٨ھ میں مدینہ میں ہوئی اور سَیّدہ کو نبی (علیہ السلام) کی دوسری ازواج مطہرات کے ساتھ بقیع غَرقد میں مَدفون کیا گیا.

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔