سندھ سرکار، تاجر اور عبادت گزار، مسئلہ کہاں ہے؟

ڈاکٹر عمیر ہارون

ایسے میں جب دنیا ایک مہلک وبا کی لپیٹ میں ہے اور پاکستان اس غیرمرئی دشمن کے خلاف حالت جنگ میں ہے، عوام یہی توقع کرتے ہیں کہ حکومت نہ صرف ان کے زخموں پر مرہم رکھے، بلکہ ان کے لیے مزید سہولتیں پیدا کرے، اسی امید پر جب سندھ کے باسی پیپلزپارٹی کی حکومت کی سمت دیکھتے ہیں، تو انھیں حیرت اور مایوسی ہوتی ہے۔
سندھ ان صوبوں میں سے ہے، جو کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا، حالات کے پیش نظر سندھ حکومت کے ابتدائی اقدامات (مکمل لاک ڈائون اور سخت پابندیاں) کو احتیاط پسندی کہہ کر نظرانداز کیا جاسکتا ہے، مگر بدقسمتی سے وقت کے ساتھ حکومت اپنے اقدامات میں لچک پیدا کرتے ہوئے لاک ڈائون سے اسمارٹ لاک ڈائون کی سمت آنے میں ناکام رہی۔
ایسے میں جب نیشنل کمانڈ سینٹر ریاستی سطح پر اس وبائی صورت حال سے نبرد آزما ہے اور ایک ایسی اسٹریجی بنائی جارہی ہے، جس کا تمام صوبائی حکومتوں کے تعاون سے اطلاق کیا جائے، بظاہر یوں لگتا ہے کہ سندھ حکومت اپنی انفرادیت پر کچھ زیادہ ہی مصر ہے۔
وزیراعظم ابتدا ہی سے اسمارٹ لاک ڈان کے حامی ہیں، اس ضمن پالیسی سازی بھی شروع ہوچکی ہے، جو اسمارٹ لاک ڈائون کی صورت سامنے آئے گی، عسکری قیادت بھی ابتدائی طریقہ کار وضع کر چکی، تاجروں اور نمازیوں کے لیے ایس او پیز بنائی جاچکی ہیں، حکومت علما کی مشاورت سے راستہ متعین کرچکی، سندھ کے نمائندے لاک ڈائون میں مزید اضافے اور پابندی سخت کرنے کے پریشان کن بیانات جاری کر رہے ہیں۔
بے شک اٹھارویں ترمیم صوبوں کا اختیار دیتی ہے، مگر اس اختیار کا اصل مقصد عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی ہے۔ یہ اختیار فقط بیان بازی تک محدود رہے تو لاحاصل ہے۔
سندھ کی تاجر برادری میں اضطراب پایا جاتا ہے، چند روز پہلے اس اضطراب نے تصادم کی شکل اختیار کر لی اور بات گرفتاریوں تک پہنچی، گو اب اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، مگر دراڑ تو پڑ چکی اور ایسے میں جب مسلسل لاک ڈائون میں اضافہ کی گردان کی جارہی ہے، اس مسئلے کا دوبارہ ابھرنا امکانی ہے۔
اضطراب میں عوام پر جبری طور پر لاک ڈائون نافذ نہیں کیا جاسکتا، دہاڑی دار مزدوروں کے لیے یہ وقت کٹھن ہے۔ کیا سندھ حکومت ہر ضرورت مند کے دروازے پر راشن پہنچا رہی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے گروہوں سے مذاکرات کر کے معاہدے کیے جائیں اور بعد ازاں اگر ان کی خلاف ورزی ہو، تو کارروائی کی جائے۔
یہ تاجر، یہ دہاڑی دار، یہ رمضان میں مساجد کا رخ کرنے والے عبادت گزار، سب سندھ کے باسی ہیں۔ اور پاکستان کے شہریوں کی حیثیت سے مکمل حقوق رکھتے ہیں۔
اگر یہ آپ سے متفق نہیں، تو کیا حل فقط یہ ہے کہ انھیں جیل میں ڈال دیا جائے؟
یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ جب وزیر اعظم کی جانب سے اسمارٹ لاک ڈائون اور معیشت کی بحالی کے اقامات کیے جارہے ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر گزشتہ روز اپنی اہم پریس کانفرنس میں اس کے خدوخال واضح کرچکے ہیں اور امید کی کرن نظر آنے لگی ہے، آخر میڈیا کیوں سندھ حکومت کے سخت گیر رویے کو امید کی کرن کے طور پر پیش آرہا ہے؟ کیا یہ مجرمانہ غفلت نہیں۔
کورونا وائرس کی نشان دہی، ہاٹ اسپاٹس کو فوکس کرکے سیکیورٹی فورسز کی معاونت سے کیا جانے والا لوک ڈائون ہی موثر ثابت ہوسکتا ہے۔ تصادم اور سخت گیری پر اصرار کسی مسئلہ کا حل نہیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔