حَسَن ابنِ علی کرم اللہ وجھہ

سُہیر عارف

ایک ایسی شخصیت جن سے نبی پاک (علیہ السلام) بے انتہا مُحبّت کرتے تھے اور جو اُن کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے، حدیثِ رسول (علیہ السلام) کا مفہوم ہے کہ جب حَسَن ابن علی پیدا ہوئے تو آپ (علیہ السلام) نے اللہ رحیم کے حُکم سے اُن کا نام حَسَن رکھا جو اِس سے پہلے کبھی کسی کا نام نہیں رکھا تھا، اور ایک صحابیہ کے خواب کے تحت حَسَن نبی (علیہ السلام) کے جسم اَطہَر کا ٹکڑا بھی قرار پائے.

اُن کو اگر تکلیف پہنچتی تو نبی (علیہ السلام) تڑپ اُٹھتے، جیسا کہ حدیثِ پاک میں ذکر ہے کہ نبی (علیہ السلام) کو حَسَن کے رونے سے بھی تکلیف ہوتی تھی، جن کے لیے نبی کریم (علیہ السلام) اپنے سجدے طویل کر دیتے، یہی وہ حَسَن ہیں جن کے بارے میں رسول (علیہ السلام) نے اللہ کریم سے دُعا کی کہ؛ اے اللہ میں اِس سے مُحبّت کرتا ہوں تو بھی اِس سے مُحبت کر اور جو اِس سے مُحبت کرے اُس سے بھی مُحبت کر اور جو اِس سے بغض رکھے تو بھی اُس سے بغض رکھ، اِنھی کے بارے میں پیارے رسول (علیہ السلام) نے فرمایا کہ حَسَن مجھ سے ہے اور میں حَسَن سے ہوں.

رسولِ اکرم (علیہ السلام) نے بچپن ہی میں بَحُکمِ خُدا اپنے دو نواسوں کو نوجوانانِ جَنّت کے اعزاز سے نوازا، حالانکہ ابھی تک اُنھوں نے دین کے لیے کوئی بڑی قُربانی نہیں دی تھی اور صرف نِسبت سے اتنی بڑی فضیلت نہیں ملتی، لیکن اللہ نے اپنے حَبیب (علیہ السلام) کو مُستقبل میں دی جانے والی حَسَن کی قربانیوں کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا، جیسا کہ حدیثِ پاک میں ذکر ہوا کہ ایک مرتبہ نبی (علیہ السلام) خُطبہ دے رہے تھے تو حَسَن کو بھاگتے ہوئے آتے دیکھا تو خُطبہ چھوڑ کر اُن کو سنبھالا اور پھر ارشاد فرمایا؛ اللہ رَبُّ العزت نے سچ کہا کہ تمھارے لیے اولاد میں فتنہ (آزمائش) ہے اور پھر فرمایا کہ "میرا یہ بیٹا سردار ہے قریب ہے اللہ اِس کہ وجہ سے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صُلح کرائے گا” اور پھر دنیا نے دیکھا کہ حَسَن ابن علی نے مسلمانوں کو فتنوں اور خون ریزی سے بچانے کے لیے خلافت سے دستبرداری اختیار کرلی.

حَسَن قرآن پاک کی جن آیات کے مصداق ہیں اُن میں آیتِ تطہیر، آیتِ مباہلہ، آیتِ مَوَدَّت اور دوسری آیات شامل ہیں.

نبی (علیہ السلام) نے اپنی وفات سے قبل متعدد بار فرمایا تھا کہ میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے معاملے میں اللہ کا خوف دلاتا ہوں کہ اُن کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنا لیکن اُمّت نے جو کچھ کیا وہ ایک تاریک داستان ہے.

حَسَن ابن علی کو جو مرتبہ اللہ کریم نے دیا ہے وہ اُمّت میں کسی کو نہیں مِلا کہ جن کے نانا سَیِّدُالنبیاء (صل اللہ علیہ والہ وسلم) ، جن کے بابا سَیّدالاولیاء، جن کی والدہ سَیّدۃالنّساءالعالمین و اہل الجَنّہ اور جن کے بھائی حُسین بھی جَنّتی نوجوانوں کے سردار ہیں.

حَسَن ابن علی ایک سخی، ایماندار اور بہادر شخص تھے، اُن کی سَخاوت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُن کے گھر سے کوئی بھوکا نہیں لوٹتا تھا اور مدینے میں اِن کا دسترخوان مشہور تھا جس کی روایت آج تک چلی آرہی ہے.

حَسَن ابن علی کی پیدائش ہجرت نبوی کے تیسرے سال پندرہ رمضان المبارک مدینہ میں ہوئی اور اِس طرح تاریخِ اسلام کی بہترین شخصیت کی دُنیا میں آمَد ہوئی.

      امام حَسَن کے چند مشہور اقوال یہ ہیں؛

تمہاری عُمر گھٹتی جا رہی ہے، بس جو کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے اُس سے کسی کی مدد کر جاؤ.

حَسَد ایک آگ ہے جو انسان کو جلاتی ہے اور دوسروں کو عَداوَت پر اُبھارتی ہے.

مؤمن وہ ہے جو زادِ آخرت مُہیِّا کرے اور کافر وہ ہے جو دُنیا کے مَزے اُڑانے میں مشغول رہے.

ہمیں اِمام حَسَن کی زندگی سے اللہ رحیم اور اُس کے رسول (علیہ السلام) کی اِطاعت اور اسلام کی خاطر اپنا سب کچھ قُربان کرنے کا دَرس ملتا ہے.

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔