انسانی تاریخ کے دس ہولناک وبائی امراض

فائزہ قریشی

سن 2020 کے آغاز میں شاید ہی کسی نے سوچا ہو کہ چین سے پھوٹنے والی ایک وبا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی،مگر اب یہ خیال ایک ہولناک حقیقت بن چکا ہے۔ پوری نوع انسانی کو آج COVID-19 نامی جان لیوا وائرس کا سامنا ہے۔
البتہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا، جب پوری دنیا کو کسی خوف ناک وبا کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ ماضی میں بھی کئی خطرناک وبائوں نے انسانیت کو معدومیت کے خطرے سے دو چار کیا۔آج ہم ایسی ہی 10 جان لیوا وباوں کا تذکرہ کریں گے۔

٭پہلی وبا ہے؛ Marburg:
یہ وائرس 1967میں افریقی ملک یوگنڈا میں ظاہر ہوا۔ چمگادڑوںسے انسان میں منتقل ہونے والے اس وائرس نے 590 افراد کومتاثر کیا،اور اس سے 478 افرادہلاک ہوئے۔ مرنے والوں کی شرح81 فیصد رہی۔

٭دوسری بیماری کا نام، ایبولا :
یہ بیماری پہلے پہل وسطیٰ اور مغربی افریقہ کے دور دراز دیہاتوں میں ظاہر ہوئی۔یہ وائرس جانوروںسے انسانوں میں منتقل ہوا۔ 1976 میں یہ مرض کانگو اور سوڈان میں رپورٹ ہوا۔ اس بیماری نے33687 افراد پر حملہ کیا اور 14693 افراد کی جان لی۔ شرح اموات44 فیصد رہی۔

٭تیسری بیماری ہے نیپا (Nipah):
یہ مرض 1999 میںپہلے ملائیشیا میں ظاہر ہوا۔ یہ و ائرس چمگاڈروں کی وجہ سے پھیلتا ہے۔اس بیماری نے 265 افراد کی جان لی۔ اموات کا تناسب53 فیصد رہا۔ بھارتی ریاست کیرالا میں بھی نیپا وائرس کی وجہ سے دس اموات واقع ہوچکی ہیں۔

٭سارس

یہ مہلک وبا 2002 میں چین میں پھیلی تھی۔اس کے تقریباً 8100 کیسز سامنے آئے اور 774 افراد ہلاک ہوئے۔یہ بھی کورونا ہی کی ایک قسم ہے۔ اندازہ ہے کہ سارس کی وجہ سے تقریباً 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ۔اس بیماری سے مرنے والوں کی شرح اموات 10 فیصد رہی۔

٭ H5N1برڈ فلو:
یہ وبا اِس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے۔علامات کھانسی، بخار اور گلے کی تکلیف ہیں۔ اِس فلو کا پہلا کیس 1997 میں ہانگ کانگ میںسامنے آیا۔فروری 2003 میں یہ دوبارہ ہانگ کانگ میں ظاہر ہوئی۔مرغیوں سے انسانوں میں پھیلنے والی اس وبا نے 861 افراد کو متاثر کیا، جب کہ455 اموات ہوئیں۔شرح اموات 53 فیصد رہی۔

٭مرس (Mers):
سعودی عرب میں ظاہر ہونے والی اس بیماری کوابتدا میں ’’مڈل ایسٹ ریسپیریٹری سنڈرم‘‘ کا نام دیا گیا۔اب یہ کئی ممالک میں پھیل چکی ہے ۔ اس بیماری سے مرنے والوں کی تعداد858ہے ،جب اس نے 2494 افراد پر حملہ کیا۔یہ وائرس اونٹوں سے انسانوں میں منتقل ہواتھا۔ شرح اموات35 فیصد رہی۔

٭H7N9 برڈ فلو:
یہ برڈ فلو بھی چین سے دنیا میں پھیلا۔ اس سے مرنے والوں کی تعداد 616 ہے، جب کہ اس نے1568 لوگوں کو اپنے شکنجے میں جکڑا ۔مرغیوں سے انسانوں میں منتقل ہونے والے اس وائرس کی بازگشت 2013 میں پہلی بار سنائی دی۔

٭A(H1N1)pdm09وائرس:
آٹھویں بیماری کا نام ہے، A(H1N1)pdm09وائرس۔یہ بھی انفلوئینزا کی شکل ہے۔اورسن 2009 میںمیکسیکو اور امریکا میں ظاہر ہوا۔سوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والے اس مرض نے ایک ملین افراد کو متاثر کیا۔اب تک دولاکھ سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔

٭سیزنل فلو:
مہلک بیماروں کی فہرست میںیہ نویں نمبر پر ہے؛ سیزنل فلو۔موسمی فلو âسیزنل انفلو ئنزا á صرف انسانی صحت کو نہیں ، بلکہ ریاستوں کے معاشی و اقتصادی نظام کو بھی متاثر کرتا ہے۔یہ ایک متعدی بیماری ہے، جو پہلی بار 1580میں سامنے آئی۔ جدید انسانی تاریخ میں انفلوئنزا کے 3 بڑے وبائی چکر ریکارڈ ہوئے۔ پہلی وبائی صورت 1908 سے 1919 تک ’’اسپینش فلو‘‘ کے طور پر ابھری۔ دوسرا پھیلائو 1957 تا 1958 ’’ایشین فلو‘‘کے طور پر سامنے آیا، تیسرا حملہ 1968 میں ہوا، جسے ’’ہانگ کانگ فلو‘‘کا نام دیا گیا۔

٭کورونا وائرس
اور اب ذکرکورونا وائرس، یعنی COVID-19کا۔کورونا وائرس گذشتہ برس دسمبر میں سامنے آیا ، اب یہ عالمی وبا کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
گو اس میں مبتلا افرادصحت یاب بھی ہوئے، مگر ہلاکتیں بھی بڑے پیمانے پر ہوئیں۔اِس کا کیریر انسان ہے۔سب سے پہلے یہ وائرس گلے، سانس کی نالی اور پھیپھڑوں کے خلیوں کو متاثر کرتا ہے۔یہ جان لیوا وائرس اب تک ساڑھے 40ہزارافراد کی جان لے چکا ہے۔کروڑوں افراد کو اس نے متاثرین کیا۔ بڑی معیشتوں کو نقصان پہنچایا اور سپرپاورز کو لاک ڈائون پر مجبور کر دیا۔
اس بیمار ی کا تاحال کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ۔ شرح اموات 4.6رہی۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔