امریکا طالبان امن معاہدہ اور اشرف غنی کی بے بسی

ڈاکٹر عمیر ہارون

جہاں ایک طرف امریکا اور ان کی اتحادی افواج کا افغانستان سے آہستہ آہستہ انخلا ہو رہا ہے، وہیں افغان حکومت نے بھی طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کی منظوری دے دی ہے۔


اب دلچسپ امر یہ ہے کہ پہلے افغان صدر اشرف غنی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایسے کسی قیدی کو چھوڑنے کے پابند نہیں۔ وہ تو یہ اصرار بھی کیا کرتے تھے کہ قیدیوں کی رہائی امریکا کا نہیں افغان حکومت کا اختیار ہے۔
طالبان اپنے موقف میں بلکل واضح تھے کہ جب تک ہمارے ساتھی رہا نہیں کیے جائیں گے، تب تک ہم افغان افواج پر حملے جاری رکھیں گے۔ افغان طالبان کا خیال ہے کہ اشرف غنی کی حکومت فقط کٹھ پتلی حکومت ہے، یہی وجہ ہے کہ اس پورے معاہدے کے دوران افغان صدر کو قطعی اہمیت نہیں دی گئی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب صدر اشرف غنی اپنی کہی بات سے پیچھے ہٹ گئے ہوں، وہ ماضی میں بھی ایسا ہی کرتے رہے ہیں۔ اپنی کمزور پوزیشن کو مضبوط ظاہر کرنے کے لیے اس طرح کے بیانات دیتے چلے آئے ہیں، مگر جب کبھی امریکا کی جانب سے پریشر آتا ہے، تو وہ خاموشی سے اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
افغان امن معاہدے کے پورے پروسیس میں اشرف غنی کو یکسر نظر انداز کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کسی طرح بھی بااختیار صدر نہیں، بلکہ وہ اشاروں پر چلنے والی کٹھ پتلی ہیں، جنہیں جب، جیسے اور جس طرح چاہیں، اپنی مرضی سے چلایا جا سکتا ہے۔
وہ قیدیوں کی رہائی کا اختیار نہ پہلے رکھتے تھے اور نہ اب رکھتے ہیں۔ اشرف غنی کو امریکا اور طالبان کے درمیان براہِ راست ہونے والے معاہدے کی شرائط پر عمل کرنا ہی تھا۔
اب ذرا پاکستان پر نظر ڈالیں، جہاں کچھ عناصر اشرف غنی کو مرد آہن کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ ہمارے نزدیک قابلِ رحم ہیں وہ عناصر، جو رہتے تو پاکستان میں ہیں، کھاتے پاکستان کا ہیں، شہرت اور عزت بھی اسی ملک کے سبب ملی، لیکن گُن وہ افغان حکومت اور اشرف غنی کے گاتے ہیں۔ بہتر ہے کہ اشرف غنی کو طاقتور صدر سمجھنے والے پاکستانی اپنے موقف سے دستبردار ہو جائیں یا پھر وہ اس بات کا برملا اعتراف کرلیں کہ ہم بھی اس کٹھ پتلی کے اشارے پر چلنے والے مہرے ہیں۔
افغانستان میں امن پاکستان کے لیے نہایت ضروری ہے۔ یہاں کچھ نام نہاد خود ساختہ لیڈر پاکستان میں لسانیت کے نام پر پشتونوں کو اُکسانے اور انہیں اس بات کا یقین دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ افغان حکومت پاکستان کے پشتونوں کی حقیقی ترجمان ہے۔
بہ ظاہر یوں لگتا ہے کہ ان عناصر کو افغان حکومت اور اشرف غنی کی نہ صرف حمایت حاصل ہے بلکہ سرحد کے اُس پاڑ سے نظریہ پاکستان کے خلاف تحریک چلانے کے لیے فنڈنگ بھی دی جاتی ہے۔ بھارت اور افغان حکومت کا یہ گٹھ جوڑ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اشرف غنی اور ان کے حمایتیوں کی خواہش تھی کہ پاکستان کمزور ہو لیکن وقت کے پہیے نے پاکستان کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا۔ افغان معاہدے میں پاکستان کے مثبت کردار کی پوری دنیا معترف ہے۔ خود افغان طالبان بھی اپنے افراد پر بھروسہ کرنے کے بجائے پاکستان پر بھروسہ کرتے ہیں۔
وقت قریب ہے کہ یہ دشمن عناصر آہستہ آہستہ منظر سے غائب ہوتے جائیں گے، بہت سو کی دُکان بند ہوچکی ہے اور عنقریب بہت سو کی بند ہونے والی ہے۔
وقت کا فیصلہ ہی حتمی ہوتا ہے، تاریخ ہی اصل داستان بیان کرتی ہے!

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔