آج کی قدر و قیمت

ماریہ تاج بلوچ

ہمیں اکثر لگتا ہے کہ ہم حال میں جی رہے ہیں لیکن حقیقت میں ہم "آج” میں موجود نہیں ہوتے ہیں۔ ہم ماضی کے خیالات اور مستقبل کے تصورات میں جی رہے ہوتے ہیں۔ شمس تبریزی کا کہنا ہے کہ ” ماضی کی تشریح کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور مستقبل فریب پر مبنی ہے۔ اگر آپ ابدی روشنی کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں تو ماضی اور مستقبل کو اپنے ذہن سے دور رکھیں اور موجودہ لمحے کو جینے کا ہنر سیکھیں۔ ہم ماضی کے اچھے اور برے لمحات کو تبدیل نہیں کر سکتے اور مستقبل میں جا نہیں سکتے لیکن حال کو ضرور بہتر بنا سکتے ہیں.

ہم ماضی کی ان سب غلطیوں کو یاد رکھیں مگر ذہن پر دباٶ نہ ڈالیں بلکہ ان غلطیوں کو نہ کرنے کی ٹهانیں لیں تاکہ وه غلطیاں دوباره سرزد نہ ہوں. ان غلط راستوں پر نہ چلیں اور اچھے کاموں کو یاد رکھیں تا کہ ہمیں مزید اچھا کام کرنے کا حوصلہ ملے نا کہ اچھے لمحات کو یاد کرکے دکھی ہوجائیں بلکہ انہیں اپنی موٹیویشن کی صورت میں آگے بڑهنے کی سعی کریں، کیونکہ ہمارے وہ سارے اقدامات تاریخ میں رقم ہو چکے ہوتے ہیں اور تاریخ کے اوراق کو پھاڑ کر ہم انھیں اچھا نہیں کر سکتے اور نہ ان کو دوبارہ لکھ سکتے ہیں. بلکہ شیکسپئر کی زندگی کی طرح وہ ساری غلطیاں اور غلط تجربات ہمیں اور ہمارے موجودہ زندگی میں رہنمائی کا کام ضرور کریں گے اور ان سارے غلطیوں کو ڈھال بنا کر اپنے موجود زندگی کو ہم روشن ضرور بنائیں۔

کرونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہے، ہم اس سے پریشان ہیں بجائے کہ ہم اس سے فائدہ اٹھائیں ہم گهر بیٹهے اپنے ایام کو ضائع نہ کریں۔ اس کے اگر منفی اثرات ہیں تو مثبت پہلو بھی بہت ہیں۔ ہم اکثر رو رہے ہوتے تھے کہ بہت سی مصروفیات کی وجہ سے ہم بہت سے کاموں کو کر نہیں پاتے ہیں۔ مثلاََ فیملی کے ساتھ وقت نہیں گزار سکتے، مزید مطالعہ نہیں کر پاتے ہیں، نئی چیزیں سیکھنے کا وقت نہیں ملتا ہے۔ خود کو وقت نہیں دے پاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اب ہمیں ان سب چیزوں کو کرنے کا اور بہت بہتر کرنے کا ایک اچھا وقت ملا ہے۔

بجائے اس رونے دھونے کے ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چائیے۔ زندگی صرف اس ہی لمحے میں موجود ہے ۔ ہم اکثر خیالات میں ہر چیز کو مشکل بناتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ چیز اتنی مشکل نہیں ہوتی جتنی ہم اسے تصور کرتے ہیں مثال کے طور پر جب طلباء و طالبات کے امتحانات قریب ہوتے ہیں تو وہ ہر چیز کو تصوراتی طور پر مشکل بناتے ہیں، اس سے وہ اچھی تیاری بھی نہیں کر پاتے ہیں۔ امتحانی ہال میں جانے سے پہلے وہ کافی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، صرف اور صرف خیالات میں لیکن جب پرچہ ہاتھ آتا ہے تو سب کچھ جو تصور کیا ہوتا ہے سب غلط ثابت ہوجاتا ہے اور بھی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جیسے کوئی اسٹیج پہ جانے سے پہلے جو سوچتا ہے وہ بھی بلکل اس کے برعکس ثابت ہوتا ہے اور ہم خوش ہوجاتے ہیں کہ جیسے تصور کیا تھا ویسا بلکل بھی نہیں ہے۔

ہمیں دانشمندی کی ضرورت ہے ، ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے، ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اپنا ذہن کو مثبت رکھیں، اپنا ذہن کیسے مرتب کریں ، اپنے ذہن کو صحیح سمت میں کیسے آگے بڑھائیں- ہمیشہ حال کو یعنی آج کو بہتر بنانے کی کوشش کریں ۔ آج کی قدر کریں اسے کھونے نہ دیں۔ ہر لمحے کو کھل کر جیئیں۔

جواب شامل کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔