کورونا معاملے پر میٹنگ میٹنگ ہورہی ہے، کام کچھ نہیں ہورہا، چیف جسٹس
اسلام آباد: عدالت عظمی میں قیدیوں کی رہائی سے متعلق ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ معاملہ صرف قیدیوں کی رہائی کا نہیں بلکہ دیکھنا یہ ہے حکومت کورونا سے کیسے نمٹ رہی ہے، صرف میٹنگ میٹنگ ہورہی ہے، زمین پر کچھ بھی کام نہیں ہورہا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اسلام آباد میں کوئی ایسا اسپتال نہیں جہاں میں جاسکوں، تمام اسپتالوں کی او پی ڈیز بند کردی گئی ہیں، ملک میں صرف کورونا کے مریضوں کا علاج ہورہا ہے، مجھے اپنی اہلیہ کو چیک کرانے کے لیے ایک بہت بڑا اسپتال کھلوانا پڑا، نجی کلینکس اوراسپتال بھی بند پڑے ہیں، یہ ملک میں کس طرح کی میڈیکل ایمرجنسی نافذ کی ہے، ہر اسپتال اور کلینک لازمی کھلا رہنا چاہیے۔
جناب چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ وزارت ہیلتھ نے خط لکھا کہ سپریم کورٹ کی ڈسپنسری بند کی جائے، کیوں بھائی یہ ڈسپنسری کیوں بند کی جائے، کیا اس طرح سے اس وبا سے نمٹا جارہا ہے، وفاق کے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں، وہ تو کچھ کرہی نہیں رہا، آپ نے جو رپورٹ جمع کرائی ہے یہ اس بات کو واضح کررہی ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ایک رپورٹ آج بھی جمع کرائی ہے، وفاق بھرپور طریقے سے اقدامات کررہا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ شیریں مزاری نے جواب داخل کرایا کہ پشاورہائیکورٹ نے 32سو قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا ہے جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پشاور ہائی کورٹ نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا، میرے خیال میں وزارت انسانی حقوق کو غلط فہمی ہوئی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ظفر مرزا صاحب کی کیا اہلیت، قابلیت ہے، بس روزانہ کی بنیاد پر ڈاکٹر ظفر مرزا کی پروجیکشن ہو رہی ہے، کیا وزارت دفاع سے کوئی عدالت آیا ہے، وزارت دفاع سے معلوم کرنا تھا کہ وہ کیا کررہے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے وزارت دفاع سے کسی کو طلب نہیں کیا تھا۔